اسلام آباد(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے چند روز میں فاٹا اساتذہ کی اپ گریڈیشن کا مسئلہ حل نہ کیا توحالات کی ذمہ دار وہ خود ہو گی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اُٹھایا جائے گا۔ جمہوری دور میں اساتذہ کا دربدر کی ٹھوکریں کھانا جمہوری حکومت کے منہ پر بدنما داغ ہے۔ احتساب صرف وزیر اعظم کے خاندان کا نہیں بلکہ ان تمام کا ہونا چاہیے جنہوں نے قوم کا پیسہ لوٹا وزیر اعظم نے 1947سے احتساب کی بات کی ہے میں اس کا حامی ہوں لیکن یہ احتساب 2016سے پیچھے کی طرف ہونا چاہیے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے فاٹا سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ ، امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا مشتاق احمد خان ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم ، امیر جماعت اسلامی فاٹا ہارون الرشید بھی موجود تھے ۔ سراج الحق نے کہا کہ اساتذہ کے دھرنے کو 17دن گزر گئے ہیں لیکن وزیر اعظم ،گورنر ،وفاقی وزراء اور صدر پاکستان سمیت کسی نے ان کی آواز نہیں سنی مشکلات کا شکاراستاد بچوں کو کیا تعلیم دے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ دسمبر میں اسی جگہ پر وزیر سیفران نے مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے پوری قوم کے سامنے جھوٹ بولا اور دھوکا دیا مسئلہ جوں کا توں ہے حکومت اگر اساتذہ کے ساتھ جھوٹ بولتی ہے تو قوم کے ساتھ کیا کرے گی۔ انہوں نے کہا اساتذہ کا اسطرح دربدر کی ٹھوکریں کھانا جمہوری حکومت کے منہ پر بدنما داغ ہے حکومت عوام کے مطالبات پورے نہ کر کے انہیں مجبوراً دہشت گردی کا راستہ بتاتی ہے حکومت کا یہ رویہ دہشت گردی اور ظلم پر مبنی ہے ۔ ہم فاٹا اساتذہ کے اس مسئلے کو بھرپور انداز میں پارلیمنٹ کے اندر اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا اپ گریڈیشن اور پرموشن قبائلی اساتذہ کا حق ہے حکومت غیر ترقیاتی اخراجات کم کر کے تعلیم پر خرچ کریں حکمران ملک سے پیسہ لوٹ کر بیرون ملک رکھتے ہیں اور اپنے اساتذہ اور طلباء کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہم اس نظام کو نہیں مانتے اگر چند دنوں میں اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر کے قدم اُٹھائیں گے اور پھر حالات کی خرابی کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس ایک بین الاقوامی اسکینڈل ہے جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ ہم نے چیف جسٹس کی سربراہی میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ کیا اور اپوزیشن نے اپنے ٹی اوآرز بھی دے دیئے ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرف سے ان ٹی او آرز کو بغیر پڑھے مسترد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ٹی او آرز پر حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا اعلان مزید وقت لینے اور معاملے کو طویل کرنے کی سازش ہے انہوں نے کہا کہ احتساب صرف وزیر اعظم کے خاندان کا نہیں بلکہ ان تمام افراد کا ہونا چاہیے جنہوں نے قوم کو لوٹا اور ٹیکس سے بچنے کیلئے لوٹی ہوئی رقم کو بیرون ملک منتقل کیا۔ یہ لوگ کھاتے ادھر ہیں سیاست ادھر کرتے ہیں حکومت ادھر کرتے ہیں ووٹ ادھر سے لیتے ہیں عیاشیاں یہاں کرتے ہیں لیکن پیسہ پاناما میں رکھتے ہیں حکومت نے کہا ہے کے احتساب 1947تک کا ہونا چاہیے میں بھی اس کا حامی ہوں لیکن اسے 2016سے شروع کیا جانا چاہیے پہلے مسلم لیگ (ن) ، پھر پیپلز پارٹی ، پرویز مشرف اور پھر جس جس کی باری آئے اس کا احتساب کیا جائے اگر کوئی مر چکا ہے تو اس کے وارثین سے ان کی جائیدادیں بیچ کر قومی خزانے میں جمع کروائی جائیں۔