• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس یکم جولائی کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے سو برس مکمل ہونے پر 20ہزار کمیونسٹوں کے اجتماع سے بیجنگ میں خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور عوامی جمہوریہ چین کے صدر ژی جن پنگ نے جہاں پارٹی کے صد سالہ ہدف ’’معتدل خوشحال معاشرے‘‘ کے قیام پر اظہارِ مسرت کیا، وہیں اُنہوں نے انتباہ کیا کہ ’’کسی طاقت (امریکہ) نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر چینی عوام دیوارِ چین سے مار مار کر پاش پاش کردیں گے‘‘۔ اب چین دوسرے بڑے تاریخی ہدف کی جانب رواں دواںہے جو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے سو برس مکمل ہونے پر یکم اکتوبر 2049تک حاصل کیا جانا ہے اور وہ ہے ’’ایک مضبوط، جمہوری، مہذب، سماجی و ماحولیاتی اعتبار سے ہم آہنگ اور جدید سوشلسٹ ملک‘‘ جو دنیا کی تاریخ کے سب سے ترقی یافتہاور خوشحال معاشرے کی تشکیل کرے گا۔ ماہرین کی پیشگوئی ہے کہ چین کی مجموعی قومی پیداوار 2026میں امریکہ سے زیادہ ہو جائے گی جبکہ تجارتی پابندیوں کے باوجود امریکہ سے تجارت میں چین کو 317ارب ڈالرز کی تجارتی سبقت حاصل ہے لیکن چین کا اصل ہدف عوام کی حقیقی فی کس آمدنی میں امریکہ کی موجودہ فی کس آمدن (63000ڈالرز) سے آگے بڑھنا ہے۔ اس وقت چین تجارت، صنعت اور زر مبادلہ میں امریکہ سے آگے ہے اور دنیا کی معاشی نمو کا 30فیصد اور عالمی سپلائی چین کا 25سے 70فیصد چین فراہم کرتا ہے۔ 77کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال لیا گیا ہے، 40کروڑ لوگ متمول مڈل کلاس میں شامل ہیں، میڈیکل انشورنس 1.3ارب لوگوں اور اولڈ ایج انشورنس ایک ارب افراد کے لئے اور مفت اور اعلیٰ تعلیم سب کے لئے یقینی بنائی گئی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 90فیصد چینی کمیونسٹ پارٹی سے خوش ہیں۔

چین کی 5ہزار سالہ ’’وسطی آسمانی سلطنت‘‘، سول سروس اور قومی خلوت اسے باقی تہذیبوں سے منفرد کرتی ہے۔ کیونگ خاندان کی سلطنت (1644-1911)کے طویل انتشار اور جاگیردارانہ زوال، 1840کی جنگ افیون، جاپانی اور برطانوی سامراجی نو آبادکاروں کے حملوں اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک چین قومی آزادی اور قومی احیا کے لئے نبردآزما رہا۔ 1917میں روس کے بالشویک انقلاب نے چینی ترقی پسندوں اور قوم پرستوں میں ایک نئی مارکسی لہر پیدا کردی جس کا اظہار 4مئی 1919کی عوامی بغاوتوں کی صورت میں ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا قیام محنت کشوں کی عالمی تنظیم کامنٹرن (Comintern) کی ولادی واستک برانچ کے بیرونی معاملات کے بیورو کے Girgory Voitinsky شنگھائی کمیونسٹ گروپ کے طور پر لائےاور یکم جولائی 1921کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔اس کا باقاعدہ قیام پہلی کانگریس منعقدہ 23-31جولائی 1921میں ہوا۔ چین کے قوم پرست انقلابی رہنما سن یات سن اور چینی کمیونسٹوں میں قومی آزادی کے متحدہ محاذ میں خوب نبھی، لیکن 1925میں سن یات سن کے انتقال کے بعد چیانگ کائی شک اور کمیونسٹوں میں اتحاد اور جھگڑا ساتھ ساتھ چلتا رہا، قوم پرستوں نے 25000کمیونسٹوں میں سے 15000کو قتل کردیا۔ چینی خانہ جنگی اور دوسری چین جاپان جنگ 1927تا 1949تک چلی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے 28سال تک جاپانی استعمار کے حملوں اور کومنتانگ قوم پرستوں، جاگیرداروں اور جنگی سرداروں سے بیک وقت جنگ کی۔ انہوں نے قومی آزادی کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے قوم پرستوں سے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن قربانی دی۔ 1935میں مائو زے تنگ ریڈ آرمی کے چیف بنے اور 1945میں انہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین کا منصب سنبھالا اور یکم اکتوبر 1949کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا۔ مائو زے تنگ نے اپنے ’’مسلسل انقلاب‘‘ کے نظریہ سے دنیا بھر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو انقلاب پر اکسایا اور انہوں نے چین میں جاگیرداری، گماشتہ سرمایہ داری اور نو آبادیاتی باقیات کا قلع قمع کردیا۔ پھر وہ گریٹ لیپ فارورڈ یعنی آگے کی جانب عظیم پھلانگ کی راہ پہ چل نکلے۔ حالانکہ چینی کمیونسٹ پارٹی، سوویت یونین اور اس کی کمیونسٹ پارٹی کی مقتدی تھی، لیکن 60کی دہائی میں ان کے مابین اختلافات نے د نیا بھر کی کمیونسٹ اور مزدور تحریکوں کو تقسیم کردیا اور چین نے امریکہ سے تعلقات استوار کر لئے۔ بعدازاں مائو کے کلچرل انقلاب نے چینی معاشرے کی اتھل پتھل کردی اور چارکے ٹولے کی شکست کے بعد ڈنگ ژیائو پنگ 1975میں برسراقتدار آئے اور انہوں نے چینی معیشت کو عالمی سطح پر کھولنے کا فیصلہ کیا۔ یوں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم اور مارکیٹ اکانومی کے ملے جلے ماڈل کا آغاز ہوا جس کا مقصود Xiokangیعنی معتدل خوشحال معاشرے کا قیام تھا۔ بعدازاں ہو جن تائو نے اجتماعی قیادت اور ترقی کے لئے سائنسی نظریہ اور ہم آہنگ سوشلسٹ سوسائٹی پہ زور دیا۔ پارٹی کی 18ویں کانگریس میں ژی جن پنگ جنرل سیکرٹری بنے اور چین کے صدر بھی۔ ژی جن پنگ نے صد سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کا مستقبل اور ترقی سوشلزم سے وابستہ ہے۔ انہوں نے چار بڑی خود احتسابیوں کے نظام کو فروغ دیا ہے اور عالمی سطح پہ روڈ اینڈ بیلٹ کے عظیم منصوبے کی بنیاد رکھی ہے جو پورے یوروشیا کو باہم جوڑ دے گا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے چار طاقتی اتحاد (Quad) کے ذریعہ ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں چین کو گھیرنے کے خطرناک کھیل میں کود گیا ہے۔ دنیا پھر سے کثیر القطبی ہو چلی ہے اور چین بالکل نہیں چاہتا کہ ایک اور سرد جنگ ہو اور وہ عالمی برادری کی سانجھی ترقی کے نظریہ پہ قائم ہے اور کسی بھی ملک کو مغلوب کر نے کے خلاف ہے۔ CPECسے مستفید ہونے اور اس کے گیم چینجر ہونے کے اعتراف کے باوجود امریکہ نواز حلقے جان بوجھ کر امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں ’’توازن‘‘ پیدا کرنے کی مہم چلارہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ چین سے ذرا دوری اور امریکہ سے اور قربت۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں افغانستان میں قیام امن کے سوا کوئی خاص سانجھ نہیں اور چار طاقتی محاذ جس میں امریکہ کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے، پاکستان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ نہ ہی پاک چین تعلقات کسی تیسرے ملک کے خلاف ہیں ۔ ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کو پاک چین دوستی کے دفاع میں کھڑا ہونے کے علاوہ امریکی پٹھوئوں کی سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔

تازہ ترین