اسلام آباد (انصار عباسی) سابق وزیراعظم نوازشریف اپنے دور حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو ہٹانا چاہتے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرنے کے لئے ریفرنس تیار کر لیا گیا تھا۔
لیکن بعدازاں جب صدر ممنون حسین ،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے مخالفت کی تو ریفرنس ختم کر دیا گیا۔
جسٹس ثاقب نثار کو بھی اپنے خلاف کچھ کھچڑی پکنے کی سُن گن مل گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) میں چند شخصیات کو ہی اس کا علم تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب اس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار نے نااہل قرار دے کر نوازشریف کی حکومت ختم کی اور انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا تو معزول وزیراعظم نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا لیکن ان کے جانشین شاہد خاقان عباسی نے انہیں اپنی کوششوں سے باز رہنے پر قائل کیا۔
اس وقت کے صدر ممنون حسین بھی ریفرنس کی کاپی دیکھ کر چونک گئے۔ رابطہ کرنے پر سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بھی ایسے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کچھ عناصر نے گمراہ کیا۔ جن کی انہوں نے نشاندہی سے گریز کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنے تحفظات سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو آگاہ کیا تو انہوں نے فیصلہ تبدیل کر دیا۔ اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ یہ 2017ء کے اواخر یا 2018ء کے شروع کی بات ہے جب شاہد خاقان عباسی نے اٹارنی جنرل کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔
شاہد خاقان نے انہیں ریفرنس کی کاپی دکھائی اور اسے پڑھنے کے لئے کہا لیکن اٹارنی جنرل نے اسے پڑھنے سے گریز کیا اور انہیں ریفرنس آگے نہ بڑھانے کے لئے کہا۔ اشتر اوصاف کے مطابق ان کا مؤقف جاننے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ان سے اتفاق کیا۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایسا کوئی ریفرنس قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ سپریم جوڈیشیل کونسل کے سربراہ بھی خود چیف جسٹس پاکستان ہوتے ہیں۔ قانونی رُکاوٹوں کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کویہ بھی بتایا کہ ایسے کسی صدارتی ریفرنس کا سیاسی اور قانونی حلقوں میں بھی خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔
اس سے حکومت اور ن لیگ دونوں کو ہی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اشتر اوصاف نے وزیراعظم سے یہ بھی کہا جس کسی نے ریفرنس تیار کیا، اسے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر عائد کردہ الزامات ثابت کرنے ہوں گے، کیونکہ استغاثہ کی قیادت اٹارنی جنرل کو کرنا ہوگی۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا، بعدازاں اس ریفرنس کو کبھی آگے نہیں بڑھایا گیا اور ختم کر دیا گیا۔ اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی خود ریفرنس کے مسودے کی کاپی لے کر صدر ممنون حسین کے پاس گئے اور صدر حیران تھے کہ ریفرنس کے معاملے میں انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو ایک وزیر سمیت کچھ لیگیوں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف ریفرنس لانے کا مشورہ دیا تھا اور اس سلسلے میں سپریم جوڈیشیل کونسل میں کوئی ایک اہم شخصیت چیف جسٹس کی برطرفی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے تب نوازشریف کو ریفرنس دائر نہ کرنے پر قائل کر لیا۔ نوازشریف نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور مبینہ ریفرنس کوئی رسمی دستاویز بننے کے بجائے ردّی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا۔