’’جب کبھی مجھے لگتا ہے کہ میرے چہرے کی رونق کم ہورہی ہے تو میں دیسی گھی کے پراٹھے کے ساتھ بالائی کھاتا ہوں۔‘‘ یہ جملہ ایک ایسے فن کار نے ہم سے برسوں پہلے کہا تھا جو اب اس دُنیا میں نہیں ہے۔
انور اقبال جنہیں لوگ ان کے مشہور ڈرامے ’’شمع‘‘ کے کردار ’’قمرو‘‘ سے جانتے ہیں، شمع ڈرامے میں ماجد علی مرحوم جو انور اقبال کے نانا بنے تھے، جب بھی اپنے نواسے کو پکارتے تو کہتے ’’نانا کی جان قمرو‘، اسی وجہ سے انور اقبال کو دیکھتے ہی منہ سے بے اختیار نکلتا تھا ’نانا کی جان قمرو‘۔ انور اقبال نے پاکستان ٹیلی وژن کے بے شمار ڈراموں میں کام کیا، پرائیویٹ چینلز پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، زندگی بھر ٹی وی اسکرین سے ناتا جڑا رہا اور ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ وہ علیل ہیں اور نامساعد حالات کا شکار ہیں۔ انور اقبال کی تصویر ہماری نظروں سے گزری تو بہت افسوس ہوا، ایک جوان و رعنا شخص اس طرح اچانک بیمار ہوگیا اور بستر سے لگ گیااور پھر ہم سے روٹھ کر چلا گیا۔
اخبار میں انور اقبال کی خبر شائع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر بھی طوفان آگیا، ہر طرف انور اقبال کی پرانی تصویر اور حالیہ تصویر لگ گئی۔ لوگ اپنے پسندیدہ فن کار کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرہے تھے۔ ہم یہ سب دیکھ کر سوچنے لگے کہ ہمارے یہاں فن کار جب شدید بیمار ہوتا ہے یا جب مرجاتا ہے تو ارباب اختیار کو خیال آتا ہے، کیا زندگی میں کسی فن کار کو اس کا جائز حق ملنا اچھی بات نہیں؟ ہم تو یہ دیکھ کر بھی دُکھی ہوتے ہیں کہ بہت سے فن کار تو علیل ہوکر بھی اس توجہ اور مراعات سے محروم رہتے ہیں، جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ خالد سلیم موٹا کی مثال ہمارے سامنے ہے، زندگی بھر فلموں میں کام کیا، پھر بیمار ہوئے، تو کام ملنا بھی بند ہوگیا۔ دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے، تو امید تھی کہ کچھ سہارا حکومت کی طرف سے مل جائے گا، افسوس کہ خالد سلیم موٹا آج بھی اس امداد کے منتظر ہیں، جس کا انہیں یقین دلایا گیا تھا۔
عینک والا جن کی بل بتوڑی نصرت، سکندر صنم، فرید خان، تنویر خان، لہری، تمنا، ریشماں، سب نے شو بزنس کی دُنیا کی چکاچوند کو دیکھا، خُوب نام کمایا اور پھر ایسے اس دنیا سے گئے کہ کسی کو خبر نہ ہوئی۔ صحافی حضرات فن کاروں کی خبریں لگاتے ہیں، اخبارات میں تصاویر شائع ہوتی ہیں، لیکن کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگتی، مگر ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ فن کاروں کے دُکھوں کا مداوا ہوجائے۔ فن کاروں کے درد کو اگر کسی نے سمجھا ہے، تو وہ صحافی ہیں۔
صحافی اور فن کاروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فن کاروں کی کام یابی، نئے پروجیکٹ، ان کی تصاویر، ان کی پروموشن میں صحافیوں اور میڈیا کا ہی کردار رہا ہے۔ میڈیا پر جب فن کاروں کی خوشیوں کی اطلاعات ملتی ہیں، تو بہت اچھا لگتا ہے ،مگر جب کسی کی مشکلات کی خبریں ملیں تو افسوس ہوتا ہے۔ فیصل قاضی کے مسائل کا علم بھی اخبار کے ذریعے عوام کو ہوا اور اب یہ انور اقبال کے متعلق خبر چلی تو ذہن میں انور اقبال کی پُوری شخصیت گھوم گئی، باوقار، پراعتماد، وجیہہ اور غیرت مند فن کار۔
انور اقبال کے ساتھ ہمیں بہت سے ڈراموں میں کام کرنے کاموقع ملا، جیو کے مارننگ شو میں بھی ہم نے انہیں مدعو کیا تھا، جہاں ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پہلی بار ہم نے انہیں ’الاو‘ کے ریکارڈنگ میں دیکھا۔ ’الاو‘ حمید کا شمیری کا تحریر کردہ ڈراما تھا۔ ’زندگی‘ کے نام سے سیریز ٹی وی پر چل رہی تھی ، جس میں ہر ہفتہ نیا انفرادی کھیل پیش کیا جاتا تھا۔ ساجدہ سید، انور اقبال اور یوسف علی اس سیریز میں اسٹاک کیریکٹرز میں تھے، یعنی ’زندگی‘ سیریز کے ہر کھیل میں یہ کردار ضرور ہوتے تھے۔
یوسف علی صحافی بنے تھے، جب کہ انور اقبال کا کردار ایک ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر کا تھا۔ انور اقبال اپنے قد کاٹھ کے باعث پولیس افسر کے کردار میں بہت جچ رہے تھے۔ ’الاو‘ ڈرامے میں ہمارے ساتھ قیصر نقوی تھیں، جو ہماری والدہ بنی تھیں۔ ڈراما کچھ یُوں تھا کہ ہمارا ظالم شوہر اور ساس ہمیں جلا کے مار ڈالتا ہے اور یہ مشہور کردیتا ہے کہ لڑکی نے خودکشی کی ہے۔ لڑکی کی ماں روتی پیٹتی ہے، فریاد کرتی ہے، صحافی یوسف علی اور پولیس افسر انور اقبال کی وجہ سے بالآخر اسے انصاف مل جاتا ہے۔ الاو کی ریکارڈنگ دن رات ہورہی تھی، سیٹ پر رونق لگی رہتی تھی۔
انور اقبال محفل کی جان ہوتےتھے، وہ اپنے بیرون ممالک میں گزارے دنوں ک دل چسپ قصے سناتے تھے۔ رات کو پُرانی سبزی منڈی جو اس زمانے میں صرف سبزی منڈی ہوتی تھی، وہاں کے ایک 24 گھنٹے کھلے رہنے والے ہوٹل سے چائے پراٹھے وغیرہ منگواتے تھے۔ انہیں رغبت سے پراٹھے کھاتے دیکھ کر ہم نے ڈاکٹری مشورہ دینے کی کوشش کی ،جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’جب بھی مجھے لگتا ہے میرے چہرے کی رونق کم ہورہی ہے، بس پراٹھا بالائی کے ساتھ کھاتا ہوں۔‘‘ ’الاو‘ آن ایئر گیا، لوگوں نے اسے پسند کیا۔ ہم دیگر ڈراموں میں مصروف ہوگئے، پھر کچھ عرصے بعد ایک اور ڈرامے کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں ہماری انور اقبال سے ملاقات ہوئی۔ ڈرامے کا نام تھا ’کاری‘، کاسٹ میں انور اقبال، یاسر نواز، قیصر نقوی اور ہم تھے۔
دلچسپ بات ہے کہ ’الاو‘ اور ’کاری‘ میں ہمارا کردار ایک ہی جیسا تھا اور کہانی میں بھی مماثلت تھی۔ کاری میں بھی ظالم شوہر اور ساس اپنی بہو کو یعنی ہمیں جلاکے مار دیتے ہیں۔ ظالم شوہر کا کردار انور اقبال نے ادا کیا تھا، جب کہ ظالم ساس قیصر نقوی بنی تھیں۔ قیصر نقوی بہت اچھی آرٹسٹ ہیں، ہمارے ساتھ ان کی خُوب بنتی تھی۔
انہوں نے ذاتی پروڈکشن کا بھی سلسلہ شروع کیا تھا، جو مختلف مسائل کی وجہ سے نہ چل سکا۔ کاری کے پروڈیوسر راجہ غضنفر تھے، جب کہ تحریر نورالہدیٰ شاہ کی تھی۔ کاری کی شوٹنگ کے دوران ہم نے انور اقبال سے پوچھا کہ ان کا فلموں میں کام کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شمع اور اس کے بعد مختلف ڈراموں میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد ان کو پاکستانی فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے خوشی سے قبول کرلی تھی۔ فلمیں سائن کرلیں، مگر فلموں میں کام کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا‘‘۔
انور اقبال نے بتایا کہ وہ ایک غیور بلوچ ہیں، ہر ایک سے تہذیب اور محبت سے پیش آتے ہیں اور احباب بھی انہیں ایسی ہی تعظیم دیتے ہیں، مگر فلموں میں اس وقت سیٹ پہ جو زبان استعمال کی جاتی تھی یا جو اندازِ گفتگو تھا، وہ انہیں ڈسٹرب کرنے کے لیے کافی تھا۔ اگرچہ شوٹنگ پر موجود تمام عملہ انور اقبال کو انور صاحب کہہ کے باادب انداز سے مخاطب کرتا تھا، ان سے عزت سے پیش آتا تھا، مگر پورا ماحول جس طرح کا تھا، وہ ان کے لیے تکلیف دہ تھا۔ ہمیں ان کی بات سمجھ آگئی تھی۔ انور اقبال بلاشبہ ذرا مختلف طرح کے فن کار تھے۔ ان میں انکساری بھی تھی اور خلوص بھی لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ کوئی غلط بات یا تلخ لہجہ بالکل برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
اپنے اصول پہ ڈٹ جاتے تھے، جو موقف اختیار کرتے، اس پرجمے رہتے تھے، دوستوں کے دوست تھے، مگر کوئی دشمنی کرنا چاہے تو بہادری سے سامنا کرتے تھے۔ انور اقبال کی بہادری اور جواں مردی کے بہت واقعات شو بزنس میں مشہور ہیں۔ دلیری اور خودداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اب ذرا ذکر ہو ایک ڈراما کا جو فیسٹیول کے لیے بنایا گیا تھا، اس میں انور اقبال نے ایک جوکر کا روپ بھرا تھا۔ کچھ عرصے قبل جب ہم جیو پر مارننگ شو کررہے تھے تو انور اقبال کو بہ طور مہمان مدعو کیا۔ وہ آئے، ان سے ڈھیروں باتیں ہوئیں، پھر ہم نے ان سے مشہور بلوچی گیت لیلیٰ او لیلیٰ سنانے کی فرمائش کردی۔
انہوں نے کہا کہ جی بالکل، میں ضرور سنائوں گا۔ پھر جناب انہوں نے بہت مزے سے گایا، ہمیں بھی جوش چڑھ گیا، ہم بھی بلوچی لوک موسیقی کے دیوانے ہیں، ہم نے ان کے ہاتھ سے مائیک لیا اور خود گانا شروع کردیا۔ اگرچہ مارننگ شو میں گلوکار شیری رضا گانے گاتے تھے۔ تاہم ہم بھی اپنا گلوکاری کا شوق ضرور پورا کرتے تھے۔ہاں جی تو انور اقبال بلوچ کا ذکر ہورہا تھا، ہماری بہت اچھی یادیں ان سے جڑی ہیں، بہت اچھے فن کار، بہت اچھے انسان تھے، اللہ ان کی مغفرت کرے۔آمین۔