برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا حالیہ دورہ ایک ایسے اہم اور تاریخی موقع پر کیا گیا جب پاکستان میں جمہوری طور پر ایک حکومت سے دوسری حکومت تک اقتدار انتقال کا عمل مکمل ہوا ہے۔ اس اہم موڑ پر پہلے سربراہ مملکت کے طور پر پاکستان کا دورہ کر کے وزیراعظم ڈیوڈ کمرون نے ایک اہم اور مثبت پیغام دیا ہے کہ برطانیہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتا ہے جہاں شہریوں کو اپنے حکمرانوں کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔کیمرون کا دورہ برطانیہ اور پاکستان کے تاریخی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں ممالک یہ بات بخوبی جانتے ہیں اور اس کا ادراک کرتے ہیں کہ انہیں مثبت طریقے سے تعلقات کو بحال رکھنا ہوگا اور اس کو وسعت دینے کیلئے نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی تاکہ دونوں ممالک کے ارتقائی دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دی جاسکے۔یہ تعلقات صرف حکومتوں تک محدود نہیں رہنا چاہئیں بلکہ دونوں جانب کے شہریوں کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے خاص طور پر برطانیہ میں رہنے والے دس لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو جو کہ وہاں رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور برطانیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ لوگ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو بڑھانے اور دونوں قوموں کے درمیان خیرسگالی اور دوستی کے جذبات کو مزید پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت میں ایک بڑا مینڈیٹ رکھنے والی نئی حکومت نے حال ہی میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف ریاست کے معاملات چلانے کے حوالے سے اجنبی نہیں ہیں اور ایک سے زائد بار حکومت میں رہ چکے ہیں۔ حکومت میں ان کا وسیع تجربہ ہے اور ترقی پذیر اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کیلئے ان کا یہی تجربہ ان کی بڑی طاقت ہے اور اندرون ملک اور بیرون ملک لوگ پاکستان کی جانب باریکی سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو مقامی اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کا وہ کس طرح سامنا کریں گے۔ دوسری جانب ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ کئی مواقع بھی موجود ہیں اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا یہ دورہ دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کو مزید بہتر کرنے کیلئے ایک اہم موقع ہے اور دونوں ممالک کو مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی پر رضامند ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس کی ساخت ایسی ہو جس سے ہر شعبوں میں ہمارے دوطرفہ تعلقات بڑھ سکیں۔
دونوں جانب کے مبصرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ہمارے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔اسی لئے یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ اس ضمن میں 2015ء تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا ہدف 3/ارب پونڈ رکھا گیا ہے۔ یہ یقینا ممکن ہوسکتا ہے تاہم حقیقی طور پر ہدف تک پہنچنے کیلئے صرف الفاظ کافی نہیں اس کیلئے دونوں فریقین کو ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنا ہوگا تاکہ کاروباری افراد کے آپس میں بہتر رابطے ممکن ہو سکیں اور اس کیلئے اہم تجارتی شعبوں کا تعین کیا جائے، انہیں ترقی دی جائے اور دونوں جانب کے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ یہ بھی دانشمندانہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ اداروں کی سطح پر ہماری تجارت اور کامرس باڈیز اور چیمبر آف کامرس میں روابط کو یقینی بنایا جائے۔کاروباری قائدین کے لئے نیٹ ورکنگ کے موقعوں کو مزید بڑھانے کیلئے سرگرمیوں اور تقریبات کا انعقاد بھی ناگزیر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی یورپین یونین کی منڈیوں تک بہتر رسائی کیلئے برطانیہ مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس سے یورپین یونین کے ساتھ پاکستان کی تجارت کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ پاکستان کا قریبی دوست ہونے کے ناتے اسلام آباد کو اپنی ترقی کی منازل طے کرنے میں برطانیہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے جو کہ ہمارے دوطرفہ تعلقات کا دوسرا اہم پہلو ہے۔ تعلیم کے فروغ کیلئے بھی قریبی شراکت داریوں کی ضرورت ہے تاکہ سماجی شعبے میں ترقی اور سول سوسائٹی کے قریب آنے سے لوگوں کے آپس میں رابطوں میں مزید وسعت پیدا ہو سکے۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف اپنی حکومت کے نقطہ نظر سے برطانوی وزیراعظم کو آگاہ کرچکے ہیں۔ جن میں ایک مثبت معاشی ڈھانچے کا قیام جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو، ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں، غربت کے مسئلے سے نمٹنا اور اپنے شہریوں کو تعلیم کے ذریعے سے بااختیار بنانا اور ان کی تربیت شامل ہے۔بلاشبہ ان اقدامات میں توانائی بحران، شہریوں کے تحفظ اور ان کی سیکورٹی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے کچھ مشکل فیصلے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح انفرااسٹرکچر کی بہتری پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے کیوں کہ معاشی پیداوار میں اضافے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی لئے دونوں جانب کے مبصرین دو وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی اس بروقت ملاقات سے انتہائی پر اعتماد ہیں اور ہماری حکومتوں اور لوگوں کے درمیان مزید بہتر تعلقات کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس قول سے اختتام کروں گا جسے پاکستان کے لوگوں نے بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا ”پاکستان کے دوست برطانیہ کے دوست ہیں اور پاکستان کے دشمن برطانیہ کے دشمن ہیں“۔ وزیراعظم ہم آپ کے ان الفاظ کی حقیقتاً قدر کرتے ہیں اور دو جمہوریتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے بہت مثبت امیدیں قائم کئے ہوئے ہیں۔