• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیفن ہاکنگ سے کسی نے پوچھا کہ انسانی تاریخ کی عظیم ترین ایجاد کیا تھی؟ کہنے لگا:پرنٹنگ پریس۔ شاید اس لئے کہ اس سے پہلے عقل مند لوگوں کی اکثریت اپنے قیمتی افکار کو اپنے ساتھ قبر میں لے جاتی تھی۔ بے کار سے بے کار کتاب چھپوانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ مصنف سخت تگ و دو کرے۔ اس کا نام پتہ دنیا کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے لکھے کا ذمہ دار ہوتاہے لیکن اب ہم جو زیادہ تر چیزیں پڑھتے ہیں، وہ سوشل میڈیا سے آتی ہیں۔ اکثر بھیجنے والے کا نام پتہ معلوم نہیں ہوتا۔ ڈس انفارمیشن کی ایک جنگ ہے اور بھیجنے والا فیک آئی ڈی استعمال کر رہا ہے۔ تحریر بیسیوں ہاتھوں سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے۔

گزشتہ بیس برس میں دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے انتہائی تیزی سے بدلی ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پانچویں کے طالبعلم سے اَسّی سالہ بزرگ تک ہر ایک موبائل اور سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ سمندر میں انٹرنیٹ کی تار بچھا دی گئی ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک انوکھی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے انسان پہلی بار مسلسل رابطے میں ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جن بچّوں کے ساتھ بیس برس پہلے ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے، ان سے بھی رابطہ بحال ہو گیا۔ اس کا نتیجہ ہے افکار کی جنگ۔

افکار کی یہ جنگ بے حد عجیب ہے۔ دوسرے جاندار خوراک پہ لڑتے ہیں۔ انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ کسی کے خیالات میرے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتے تو وہ اس سے بھی لڑنا شروع کر دیتاہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ رابطے میں رہناصورتِ حال کا ایک روشن رُخ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی منفی چیزیں بھی جڑی تھیں۔ انسانی دماغ میں خدا نے ایک دوسروں سے برتر و اعلیٰ نظر آنے کی خواہش رکھی ہے۔ ایک تقریب میں، اگر سب کی نظریں آپ پر جمی ہوں، آپ کے ایک جملے پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھے تو انسان کو اس قدر لطف ملتا ہے کہ جو بیان سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ وعظ کرتے ہیں،مسلسل سیاسی تقاریر کرتے ہیں، ان کی نفسیات بالکل بدل کر رہ جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ اپنے دماغ کا اگلا پہیہ اٹھا کر اسے چلا رہے ہیں۔ اس میں طنز اور تضحیک ایک بنیادی ہتھیار ہے۔ دشمن پر تو طنز کا استعمال پھر بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اسے زخم لگانا مقصود ہوتا ہے لیکن دوستوں پر کیوں؟

انسان جب دوسروں سے ملتا ہے تو غلبے کی اپنی جبلت کو تسکین دینے کے لئے خود کو تیز طرار ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ خود کو وہ 'کھڑپینچ‘ اور 'ڈنگا‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مذہب پہ طنز کرنے لگتا ہے۔ اگر آپ کی شخصیت لوگوں کو بہت سادہ لگے تو لوگ آپ کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل میں انسانی دماغ ایک بہت خوفناک مشین ہے۔ یہ زندگی میں ملنے والے ہر شخص کے بارے میں اندازے قائم کرتی ہے۔ یہ سادہ ہے یا چالاک، پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، گرم مزاج ہے یا نرم مزاج، کنگال ہے یا امیر، پھر لا شعوری طور پر اپنے اندازوں کے مطابق وہ اس سے ڈیل کرتا ہے۔اسے عزت دیتا ہے یا اس کی تذلیل سے لطف حاصل کرتا ہے۔ یہ عمل بہت خطرناک ثابت ہو سکتاہے کہ بعض لوگ چھپے رستم ہوتے ہیں۔ وہ پھر پنگے باز حضرات کا ٹھیک علاج کرتے ہیں۔

انسان لاشعوری طور پر دوسروں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے، اس کا طرزِ فکر، اس کا طرزِ عمل درست ہے۔ دوسرے جو سوچ رہے ہیں، وہ غلط ہے۔ حالانکہ بیشتر جگہوں پریہ ثابت کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلاً کچھ رشتے دار اگر تحریکِ انصاف کو پسند کرتے ہیں اور کچھ نون لیگ کو تو آتے جاتے وہ ایک دوسرے پر چوٹ کرتے رہیں گے۔ یہ طرزِ عمل بہت کم اختیار کیا جاتا ہے کہ تم جسے چاہے ووٹ دو اور ہم جسے چاہیں ووٹ دیں۔ ایک دفعہ ایک دوست ایک اسکول سسٹم کو برا کہہ رہا تھا، اس بنیاد پر کہ بچّوں کو وہ دین سے دور کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا، بچّوں کو کم از کم وہ اپنا دماغ استعمال کرنا سکھاتے ہیں۔ جہاں تم اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہو، وہاں سے وہ لکیر کے فقیر بن کے ہی نکلیں گے۔بس پھر کیا تھا۔شدید بحث اور تلخی ہوئی۔ بعد میں جب میں نے سوچا کہ اس بحث سے مجھے کیا حاصل ہوا؟ بچّے اس کے ہیں، جہاں وہ چاہے انہیں پڑھائے۔ یوں ایک بہت عمدہ نکتہ آشکا ر ہوا کہ بن مانگے مشورہ اکثر واپس اپنے منہ پہ پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا بن مانگے مشوروں سے بھرپور ہے۔ یہ بھی جنگ و جدل کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

تازہ ترین