فاروق احمد
یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی عرصےپہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا لیکن اس وقت تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں ۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے ،مثلا" ہیڈ ماسٹر ، فِیس ، فیل ، پاس وغیرہ وغیرہ۔ " گنتی " ابھی " کاوُنٹنگ " میں تبدیل نہیں ہوئی تھی ۔ اور " پہاڑے " ابھی " ٹیبل " نہیں کہلائے تھے ۔ 70 - 80 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں " خدا حافظ " کی جگہ " ٹاٹا " سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے " ٹاٹا " کہلوایا جاتا ۔زمانہ آگے بڑھا ، مزاج تبدیل ہونے لگے ۔ عیسائی مشنری اسکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی ( پرائیوٹ ) اسکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی ۔ سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی ا سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے ۔ کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
رفتہ رفتہ عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب نہایت تیزی سے جاری و ساری ہے ۔اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت ، کلاس میں تبدیل ہوگئی - اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے ۔ہمیں بخوبی یاد ہے کہ، 50 اور 60 کی دھائی میں، اول ، دوم ، سوم ، چہارم ، پنجم ، ششم ، ہفتم ، ہشتم ، نہم اور دہم ، جماعتیں ہوا کرتی تھیں ، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا ۔ پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں ، تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے ۔گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ’’ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن‘‘ آ گئیں ۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا نہ رہا بلکہ’’ ہولیڈے پریکٹس ورک ‘‘ہو گیا ۔ پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی ۔ امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے - ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ’’ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز‘‘ کی اصطلاحات آ گئیں - اب طلباء امتحان دینے کے لیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ ’’اسٹوڈنٹس ایگزام کیلئے ایگزامینیشن سینٹر‘‘ جاتے ہیں ۔قلم ، دوات ، سیاہی، تختی ، سلیٹ جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ اپنسل ، جیل پین اور بال پین آ گئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل لگ گیا -نصاب کو کورس کہا جانے لگا اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں ۔ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا ۔ اسلامیاتخ اسلامک اسٹڈی بن گئی۔
انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی - اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات اکنامکس میں ، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے -پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس اسٹڈی کرنے لگے ۔پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں ۔ اساتذہ کےلیے میز اور کرسیاں لگانے والے ، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چیئرز لگانے لگے ۔داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے ۔...اول، دوم ، اور سوم آنے والے طلبہ ؛ فرسٹ ، سیکنڈ ، اور تھرڈ آنے والے اسٹوڈنٹ بن گئے ۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے ۔ بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے ۔ یہ سب کچھ سرکاری ا سکولوں میں ہوا ہےاور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے ، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے ۔زنان خانہ اور مردانہ خانہ تو کب کے ختم ہو گئے ۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا ۔باورچی خانہ، کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے ۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا ۔ مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے ۔مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور ۔ دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا ، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی ۔
کمرے روم بن گئے ۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے ۔" ابو جی " یا " ابا جان " جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا ، اور ہر طرف ڈیڈی ، ڈیڈ ، پاپا ، پپّا ، پاپے کی گردان لگ گئی، حالانکہ پہلے تو پاپے ( رس ) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں ، اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ " امی " یا امی جان " ممی " اور مام میں تبدیل ہو گیا ۔سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا ۔ چچا چچی ، تایا تائی ، ماموں ممانی ، پھوپھا پھوپھی ، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ " انکل اور آنٹی " میں تبدیل ہو گئے ۔ بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے ۔ یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ۔
ساری عورتیں آنٹیاں ، چچا زاد ، ماموں زاد ، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہو گئے ، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی ۔نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں ،اب بھی ماسی ہی ہیں۔ گھر اور اسکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے ۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے، جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے ۔ سڑکیں روڈز بن گئیں ۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی ، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنا دیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا ، نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا ۔ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے ۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی ، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں ،بابو کلرک اور چپراسی پیون بن گئے ۔ پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا -سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا ۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں اور محبت کو ' لَوّ ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی ہی چھین لی گئی ۔
صحافی، جرنلسٹ بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے ۔کس کس کا، اور کہاں کہاں کا کیا کیارونا رویا جائے ۔اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں ، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے ۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں ۔
وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم کہاں سے کہاں آ گئے اورکہاں جارہے ہیں ؟ دوسروں کا کیا رونا روئیں ، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں ،. دوسرا کوئی نہیں ۔ بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں، روز بروز یہ عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے ،روکیئے،رود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیئے۔