کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر نیب سکھر عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس امجد علی سہتو نے نیب کے وکیل اور ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ دوسرے جیل میں ہیں تو خورشید شاہ اسپتال میں کیوں پڑے ہیں، آپ کیا سکھر سے یہاں صرف انڈے دینے آئے ہیں، درخواست گزار خورشید شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہخورشید شاہ کے خلاف کوئی ایک ثبوت نہیں لہذا عدالتی فیصلوں کے تناظر میں میرے موکل کی درخواست ضمانت منظور کی جائے۔ اس موقع پر نیب کے وکیل نے کہا کہ نیب پوری طرح ریفرنس چلانے کی کوشش کر رہا ہے، ریفرنس میں تاخیر خورشید شاہ و دیگر ملزمان کی وجہ سے ہے ملزمان بیماری کا بہانہ بنا کر این آئی سی وی ڈی میں داخل ہوگئے این آئی سی وی ڈی میں نیب کو جانے نہیں دیا جا رہا این آئی سی وی ڈی میں ایڈیشنل اجلاس ہو رہے ہیں۔ جسٹس امجد علی سہتو نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نیب عدالت کو یہ حقیقت بتائی ؟ کیا آپ نے ملزمان کو این آئی سی وی ڈی سے جیل بھیجنے کی استدعا کی؟ جب دوسرے جیل میںہیں تو یہ اسپتال میں کیوں پڑے ہیں یہ بتائیں، کیا موجودہ ریفرنس ہی فائنل تصور کیا جائے؟ ایک شخض کو 20 ماہ رکھنے کے بعد بھی فائنل ریفرنس داخل نہیں ہوا، جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزمان ٹیکنیکل طریقے سے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ دو سال سے فائنل ریفرنس داخل کر سکے آپ نے سپریم کورٹ میں دو ہفتے کی مہلت لے کر مہینے گزار دیئے، نیب کے وکیل نے کہا کہ جو تاخیر بھی ہوئی ملزمان کی وجہ سے ہوئی، نیب کا اس تاخیر میں کوئی کردار نہیں، جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ آپ سے سوال صرف اتنا ہے کہ فائنل ریفرنس کہاں ہے؟ بتائیں دو سال میں کیا کیا؟ جس پر ڈائریکٹر نیب سکھر نے کہا کہ ہمیں کچھ مہلت دی جائے تو دستاویزات پیش کر دیں گے، عدالت عالیہ نے کہا اس کیس کو آج ہی سن کر فیصلہ کریں گے آپ سکھر سے آئے ہیں کوئی دستاویز لائے ہیں؟ آپ کیا سکھر سے یہاں صرف انڈے دینے آئے ہیں گاڑی میں کچھ فائلیں ہی تو رکھنا تھیں۔ نیب کے وکیل نے استدعا کی کہ سماعت جمعے تک ملتوی کردیں تاہم عدالت نے کہا کہ آج سماعت کی کارروائی مکمل کریں گے اوراس کیس کا فیصلہ آج ہی کریں گے آپ کو جو دلائل دینا ہیں، آج ہی مکمل کریں۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی ہر سماعت پر موجود رہے اگر عدالت عالیہ چاہے تو نیب کورٹ ٹرائل کورٹ کی ڈائری پڑھ سکتی ہے۔ڈائری سے ثابت ہوجائے گا کہ تاخیری حربے کون استعمال کر رہا ہے بے شمار سماعتوں میں وکلا صفائی نے تاخیری حربے استعمال کئے لہذا ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے اور ٹرائل کورٹ کو سماعت تیز کرنے کا حکم دیا جائے۔عدالت عالیہ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے طرفین کے وکلا کو ہدایت کی ہے کہ جمعہ تک فریقین تحریری طو ہر دلائل جمع کرا ئیں۔