ڈرامے یا فلم کی کام یابی میں اسکرپٹ رائٹر یعنی کہانی کار کا ذہن اور تحریر کا نمایاں رول ہوتا ہے۔ کمزور اسکرپٹ ہو تو بڑے سے بڑے اداکار کے لیے اسے نبھانا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن عمدہ اور مضبوط اسکرپٹ ہو تو اوسط درجے کی اداکاری بھی اسے زبردست کام یابی بخشتی ہے۔ ہدایت کار کا اسکرپٹ کو سمجھنا اور اسے ڈائریکٹ کرنا، بھی ایک کمال ہے۔ لائٹنگ، سائونڈ، ریکارڈنگ سب کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن بنیادی ضرورت ایک اچھے اسکرپٹ کی ہے۔ ماضی میں جب ڈراما ہوتا تھا، تو ڈائریکٹر کو اچھے اسکرپٹ کی ہی تلاش ہوتی تھی۔
ڈراما رائٹر پہلے ایک پائلٹ لکھتے تھے، وہ منظور ہوتا تھا، تو پھر پورا ڈراما بنتا تھا۔ پروڈیوسر اور رائٹر کی بہت ساری میٹنگز ہوتی تھیں، اسکرپٹ ڈسکس ہوتا تھا، سیٹ ڈیزائنز بھی میٹنگ میں اکثر شریک ہوتا تھا۔ بہت عرق ریزی کے بعد ڈراما سیریل کی 13؍اقساط مکمل ہوتیں۔ پہلے لانگ پلے بھی نشر ہوا کرتے تھے، جن کا دورانیہ 90؍منٹ کا ہوا کرتا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بڑے بڑے ادیبوں، دانش وروں اور لکھاریوں نے ڈرامے لکھے۔
اشفاق احمد، بانو قدسیہ، منو بھائی، مستنضر حسین تارڑ، انتظار حسین، یونس جاوید اور شوکت صدیقی سمیت بے شمار نام ہیں، جنہوں نے اسکرین پر اپنے قلم کی دھاک بٹھائی۔ ایسے ہی ناموں میں ایک نام معروف ڈراما نگار اور ادیب حمید کاشمیری کا بھی ہے۔ حمید کاشمیری پاکستان کے صفِ اول کے افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نویس اور دانش ور تھے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے تحریر کیے۔ ٹیلی ویژن کا سنہرا دور ان کے ڈراموں سے سجا ہوا ہے۔
یکم جون 1930ء کو بانسرہ گلی، مری میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری، جب کراچی آئے تو صدر کے علاقے میں ایک فلیٹ میں سکونت اختیار کی۔ الفسٹن اسٹریٹ جو آج کل زیب النساء مارکیٹ کہلاتی ہے، اس پر ایک بک اسٹال کھول لیا۔ کتابوں کی یہ چھوٹی سی دُنیا بعد میں علم و ادب کا ایک بڑا مرکز بن گئی کہ ہر شام وہاں شہر بھر کے ادیب، شاعر، نقاد، دانش ور جمع ہونے لگے۔ اہل علم کی یہ بیٹھک ایسی مشہور ہوئی کہ شہر میں اگر کسی کو کسی بڑے شاعر یا ادیب سے ملنا ہوتا تھا، تو وہ حمید کاشمیری کی کتابوں کی دُکان کا رخ کرتا تھا۔ اس بک اسٹال کی شہرت کراچی سے نِکل کر پھر پورے پاکستان میں پھیل گئی اور کراچی میں باہر سے آنے والے شعرا اور ادیب بھی یہیں آکر سب سے ملاقات کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس مرکز پر دانش ورں کے ساتھ ساتھ فن کار بھی آنے لگے۔ یہ ریڈیو کا زمانہ تھا، پھر جب ٹیلی ویژن آیا، تو ٹی وی پروڈیوسر بھی بک اسٹال پر آنے لگے۔ صدر میں واقع اس بک اسٹال کی اہمیت وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اسے اس دور میں دیکھا ہوگا۔ حمید کاشمیری کی کتابوں سے محبت اور لکھنے لکھانے سے رغبت نے انہیں ملک کا صف اول کا افسانہ نگار، ڈراما نگار اور ناول نگار بنا دیا تھا۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دیواریں‘‘ 1965ء میں شائع ہوا، دوسرا افسانوں کا مجموعہ 1993ء میں ’’سرحدیں‘‘ کے نام سے جاری ہوا۔ انہوں نے 15؍؍سے زائد ناول لکھے۔ ’’ادھورے خواب‘‘ ’’کشکول‘‘ ’’پہلا آدمی‘‘ اور ’’رگ گل‘‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ حمید کاشمیری کے ناول ہفت روزہ ’’اخبارجہاں‘‘میں پابندی سے شائع ہوتے رہے۔ انہوں نے اپنے بہت سے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اور ڈراما سیریل تحریر کیے۔
حمید کاشمیری کے ڈرامے ناظرین کے ذہن و دل کو فتح کرلیتے تھے۔ ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ ان کا ایسا سیریل تھا، جس میں طلعت حسین اپنے منفرد کردار ’’عالی جاہ‘‘ اعجاز اسلم ’’روشو‘‘ کے کردار میں خوب چمکے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے بہت سے نئے فن کاروں کو متعارف بھی کروایا۔ ہمیں بھی حمید کاشمیری کے بہت سے ڈراموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور ہمارے فنی کیریئر اور ہماری شہرت میں حمید کاشمیری کے تحریر کردہ ڈراموں کا بہت کردار رہا ہے۔
اُن کے مقبول ڈراموں میں زندگی، اعتراف، کشکول، پاداش، شکست آرزو، رنگِ حنا، گریز، ہفت آسماں، روزن زندان اورپت جھڑ کے بعد، شامل ہیں۔ ’’پت جھڑ کے بعد‘‘ ایسا شاہ کار ڈراما تھا، جسے 70ء کی دہائی کےایک بڑے فیسٹیول میں ایوارڈ ملا۔
ان کا لکھا ہوا ڈراما ’’زندگی‘‘ ایک سیریز تھی، جس میں ہر ہفتے نئی کہانی پیش کی جاتی۔ ہم نے ’’زندگی‘‘ سیریز کے ڈرامے ’’الائو‘‘ میں کام کیا۔ ’’رنگ حنا‘‘ بھی سیریز تھی، جس کے ہدایت کار ایم ظہیر خان اور حیدر امام رضوی تھے۔ طاہرہ واسطی اس میں اسٹاک کیریئر میں تھیں۔ وہ ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کررہی تھیں، جو میرج بیورہ کی روح رواں ہیں اور رشتے طے کرواتی ہیں۔ حمید کاشمیری نے یہ کردار شہر کی معروف میرج بیورو منیجر کو ذہن میں رکھ کے تخلیق کیا تھا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس ڈرامے میں ہر ہفتہ نیا کھیل نشر ہوتا، جو شادی بیاہ سے ہی معتلق ہوتا تھا۔ ہم نے ’’رنگِ حنا‘‘ کے ایک ڈرامے میں کام کیا، جس میں ہمارے ساتھ ہماری طرح اس وقت کے نئے فن کار شامل تھے۔
’’روزن زندان‘‘ بھی حقیقی زندگی سے جڑی کہانیوں پر مشتمل ڈراما سیریز تھی۔ ملک کے معروف وکیل ضیاء اعوان نے اس ڈرامے کے لیے بہت تعاون کیا اور وہ اسٹوریاں شیئر کیں، جو کیس ان کے پاس آئے۔ حمید کاشمیری نے حقیقی زندگی میں پیش آنے والے جرائم، کیس، جیل، عدالت، سزا، تمام حالات زندگی قلم بند کیے اور پورے 13؍ڈرامے پیش کیے۔ ’’روزن زندان‘‘ کے ڈائریکٹر شاہد اقبال پاشا اور ضیاء اعوان کا کردار طلعت حسین نے ادا کیا تھا۔ ہم نے ’’روزن زندان‘‘ کے کھیل ’’کفارہ‘‘ میں کام کیا، جس میں ہمارے ساتھ قاضی واجد اور بدر خلیل نے بھی کردار نگاری کی۔
یہ ڈراما ایک ایسی کم عمر لڑکی کے بارے میں تھا ،جو کسی گھر میں کل وقتی ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے اور مالکن اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگا کر نہ صرف اس پر خوف ناک تشدد کرتی ہے، بلکہ اس کو گرفتار بھی کروا دیتی ہے۔ ہم اب ڈراما سیریل ’’پاداش‘‘ کا بھی ذکر کریں گے، جو ہماری زندگی کا یادگار ڈراما تھا۔ ’’پاداش‘‘ ناول کی شکل میں ’’اخبارجہاں‘‘ میں پہلے شائع ہوچکا تھا، چار سہیلیاں جو آئیڈیل کا خواب دیکھتی ہیں، مگر جب عملی زندگی میں آتی ہیں، تو خواب چکناچور ہوجاتے ہیں۔
حمید کاشمیری کا ڈراما سیریل ’’شکست آرزو‘‘ بھی لاجواب ڈراما تھا، جس میں نیلما حسن، محمود اختر، لیلیٰ زبیری، رضوان واسطی، معصومہ لطیف اور طلعت حسین نے کام کیا۔ یہ کاظم پاشا کی پیش کش تھی۔ ڈراما سیریل ’’گریز‘‘ کے بھی ہدایت کار کاظم پاشا ہی تھے۔
حمید کاشمیری نے جہاں ڈراما سیریل اور سیریز میں خود کو منوایا، وہیں لانگ پلے بھی بہت عمدہ تحریر کیے۔ ’’ہفت آسماں‘‘ تصوف کے موضوع پر بننے والا ان کا لانگ پلے تھا، جس میں ہم نے بھی کام کیا۔ ہمارے علاوہ اس ڈرامے کی کاسٹ میں انور سولنگی، روشن عطا اور راشد سمیع شامل تھے۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر طارق جمیل تھے، جو آج کل ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن ڈراموں کے ساتھ ساتھ حمید کاشمیری نے ریڈیو اور اسٹیج کے لیے بھی ڈرامے لکھے۔ ’’خون اور پانی‘‘ ان کا مقبول اسٹیج پلے تھا۔ اُن کے کریڈٹ پر سو سے زیادہ ڈرامے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے دُکھ سُکھ ڈرامے کی شکل میں ٹی وی پر پیش کیے۔ 6؍جولائی 2003ء کو وہ دُنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد ڈراما کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔