صفیہ سلطانہ صدیقی
محلے میں بچوں نے اتنا شور مچا رکھا تھا کہ جن کو قربانی کرنا تھی وہ اپنے اپنے جانور بیس پچیس دن پہلے ہی لے آئے۔ گلی میں جانوروں کی جیسے منڈی لگ گئی تھی۔ میمون اور فائز کا گھر آمنے سامنے تھا، ان دونوں کے ابو بھی بکرے لے آئے تھے۔ میمون کا بکرا خاصا کمزور تھا جب کہ فائز کا بیل کے بچے جتنا بڑا اور اونچا تھا۔فائز کا کرائے دار سلیم بھی فائز کے ساتھ ساتھ بکرا لے کر گھوم رہا تھا۔ بچوں کو بہت مزا آرہا تھا۔
ان تینوں کی بڑی دوستی تھی، اس لیے شیطان نے سوچا کہ انہیں آپس میں لڑوا یا جائے تاکہ ان کاقربانی کا ثواب بھی ضائع ہو اور مزا بھی کرکرا ہوجائے۔ اس نے فائز کے دماغ میں ڈالا کہ ’’تیرا بکرا کتنا شاندار ہے اور میمون کا بکرا تو ڈھانچہ ہے ڈھانچہ‘‘۔ شیطان یہ خیال فائز کے دماغ میں ڈال کر پیچھے ہٹ کر ہنسنے لگا۔
فائزشیطان کے بہکاوے میں آگیا، اس نے میمون کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ’’میمون تم اس بار ڈھانچے کی قربانی کروگے؟ ڈھانچے کی قربانی قبول ہوتی ہے کیا؟‘‘ فائز کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ میمون پراس کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا اور نہ وہ شرمندہ ہوا۔ اس نےجواباً فائز سے کہا ’’مجھے لگتا ہے تمہاری قربانی قبول نہ ہوگی، کیوں کہ یہ خالص نہیں رہی‘‘ ۔یہ سن کر فائز اور سلیم ہنسنے لگے اورفائز نے میمون سےپوچھا،’’خالص قربانی کیا ہوتی ہے؟‘‘ ۔ ’’ جس میں ملاوٹ نہیں ہو۔‘‘ میمون نے سنجیدگی سے جواب دیا اور بکرا لے کر اپنے گھر میں چلا گیا ۔
فائز اور سلیم کو بکروں کی صورت میں دل چسپ مشغلہ ہاتھ آگیا تھا۔ وہ کبھی اس کا منہ پکڑتے ،کبھی کان مروڑتے، کبھی کمر پہ ہاتھ مارتے ۔ایک دن ان کی حرکتوں سے بکرا غصے میں آگیا اور اس نے فائز کی ٹانگوں پر سینگ مار دیاجس سے وہ زمین پر گر گیا۔ سلیم بکرے کی رسّی چھوڑ کر فائز کو اٹھانے کے لیے بھاگا۔ بکرے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورتھوڑی ہی دیر میں وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ دونوں بچوں کے حواس بحال ہوئے تو بکرے کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا۔ فائز چوٹ بھول کر رونے لگا،اسے یہ خوف بھی ستا رہا تھا کہ اس کے ابو جب بکرے کی گمشدگی کا سنیں گے تو نہ صرف اسے ڈانٹیں گے بلکہ پٹائی بھی کریں گے۔
اس کی امی بھی اسے نہیں بچائیں گی کیوں کہ وہ تو پہلے ہی کہہ رہی تھیں کہ بکرے کو کھلاؤ، پلاؤ، اس کی نمائش نہ کرو اگر باہر ٹہلانے بھی لے جاؤ تو جلدی واپس لے آؤ، مگراس نے امی کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ وہ خوف سے گھر کے آگے بیٹھا رو رہا تھا کہ میمون کسی کام سےوہاں سے گزرا۔ جب اسے پتہ چلا کہ اس کا بکرا بھاگ گیا تو اس نے کہا ، ’’دیکھو بھائی! قربانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر واجب قرار دی گئی ہے ،قربانی کے جانور کو پیار و محبت سے رکھا جاتا ہے لیکن تم اپنے بکرے کو بہت ستاتےتھے اور میرے بکرے کا بھی مذاق اڑاتے تھے،میں اللہ تعالیٰ سےدعا کروں گا کہ تمہارا بکرا مل جائے۔‘‘
فائز نے اس کی باتیں انتہائی تحمل سے سنیں اور افسردگی سے کہا،’’ میمون تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اب عقل آگئی ہے،مگر جاتے جاتے خالص قربانی کا مطلب تو بتاتے جائو‘‘؟ میمون نے کہا،’’ سنو!اس کا مطلب ہے کہ قربانی کرنے والے کی نیت میں کھوٹ نہ ہو‘‘۔ یہ شیطان بہکاتا ہے کہ جانور ایسا ہے، ویسا ہےجب کہ اللہ تعالیٰ خود سورۂ حج میں فرماتا ہے کہ اللہ کو نہ تمہاری قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون ،اس تک صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ ’’تقویٰ..... تقویٰ مطلب؟‘‘ سلیم نے پوچھا۔
’’اللہ کی خوشی، اس کا خوف، اس کی محبت۔ یہ ہے تقویٰ‘‘۔ اپنےموٹے تازے جانور پر غرور اور دوسروں کےکمزور جانوروں کا تمسخر نہیں اڑانا چاہیے ، یہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے‘‘ میمون نے انہیں بتایا۔
’’ مگر بھائی اب ہم کیا کریں، ہمارا تو بکرا ہی بھاگ گیا ، ابو دوسرا بکرا ہرگز نہیں لائیں گے اب ہم قربانی نہیں کرسکتے‘‘۔ فائز پھر رونے لگا۔میمون نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ، کہ فائز تم اللہ سے سچی توبہ کرو، وہ یقیناً تمہاری مدد کرے گا‘‘ فائزنے توبہ کی اور کھویا ہوا بکرا ملنے کی دعائیں مانگنے لگا۔ ابھی دس منٹ بھی نہ ہوئےتھے کہ اس کے بڑے بھائی بکرا لیے ہوئے نظر آئےاور آتے ہی کہا ،’’نالائقو! تم نے تو بکرا بھگا دیا تھا، میںاسکول سےگھر آرہا تھا کہ سلیم کے ہاتھ سے رسی چھڑا کر اسے بھاگتے دیکھ کر اس کے پیچھے دوڑا، میں نے بڑی مشکل سے بس اسٹاپ کے پاس جا کر پکڑا‘‘۔ بھائی جان فائز کو غصے سے گھور رہے تھے۔
فائز نے بے یقینی سے اپنا بکرا دیکھا اور بے ساختہ بولا ’’اللہ اکبر‘‘ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا گم شدہ بکرا ،اس کے سامنے کھڑا ہے۔ بھائی جان ہنس کر بولے’’ارے کیا ،ابھی سے اس کی قربانی کر رہے ہو؟ ، چلو اسے لے جاکر پانی پلائو، یہ بہت پیاسا ہے۔‘‘ فائز نے خوش ہوکر بکرے کی رسی پکڑی اور بکرے کو پانی پلاتے ہوئےاللہ کا شکر ادا کیا اور غرور و تکبر سے توبہ کی۔