آج اتوار ہے، اپنی اولادوں کے دماغ میں تڑپتے سوالات کا جواب دینے کا دن۔ خوشی ہوتی ہے جب احباب کہتے ہیں کہ ہم آپ کے کہنے کے مطابق اتوار بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
آج میں آپ سے، آپ کی اولادوں سے ایک بہت ہی تشویش ناک صورت حال پر ہم سخن ہونا چاہتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ میرا دل کھول دے۔ میرا کام آسان کردے۔ میری زبان سے اس عقدے کو حل کرا دے۔ آپ تک میری بات پہنچ جائے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا تو آپ سب نے ذکر سنا ہے، پڑھا ہے، جو قائدِ ملت تھے۔ پھر ہمارے اپنے لوگوں کی سازش سے اُنہیں پنڈی کے جلسے میں شہید کردیا گیا۔ ان کے آخری الفاظ تھے ’’ﷲ پاکستان کی حفاظت کرے‘‘۔ آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ ان کی جیب میں اس وقت کتنی رقم تھی۔ اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آپ جانتے ہیں ان کی شہادت کے بعد ان کی اولاد پر کیا گزری؟ اس وقت ان کے خاندان میں سے کون کون حیات ہے؟
لیاقت علی خان قائداعظم کے دستِ راست تھے۔ آج بھی جب پاکستان کے حکمرانوں کا ذکر ہوتا ہے تو مخلص اور سچے لوگ اس طرح جملہ ترتیب دیتے ہیں کہ قائداعظم اور قائدِ ملت کے بعد حکمرانوں نے پاکستان کو لوٹا۔ لیاقت علی خان کرنال کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے کوئی جائیدادیں نہیں بنائیں۔ کراچی، اسلام آباد، لاہور، لندن، واشنگٹن میں ان کے کوئی اپارٹمنٹ اور وِلاز نہیں ہیں۔ ان کی بیوہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے لئے ریاست نے بہت ہی حقیر رقم کا وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اسی بیگم سے موسوم ’’گلِ رعنا‘‘ ایک بڑی رہائش گاہ دہلی میں لیاقت علی خان نے پاکستان کو عطیہ کی۔ جہاں آج بھی پاکستان ہائی کمیشن قائم ہے۔ بہت ہی مہنگا علاقہ ہے۔ جہاں دوسرے ملکوں کے سفارت خانے بھی ہیں۔ بیگم رعنا سے انہوں نے شادی 1932میں کی تھی۔ اشرف لیاقت، اکبر لیاقت ان کے دو صاحبزادے اپنے ابا کے تو لاڈلے تھے ہی، قائداعظم بھی ان کو بہت چاہتے تھے۔ جب ملتے ان کی بلائیں لیتے۔ قائداعظم کے قائدِ ملت کے نام جو خطوط ہیں۔ محقق سید رضا کاظمی کہتے ہیں۔ ہر خط میں آخر میں قائداعظم ضرور لکھتے تھے۔
My Love to Ashraf and Akbar.
وزرائے اعظم کے خاندانوں کا معاشی عروج تو ہم نے بہت دیکھا ہے۔ سابق وزرائے اعظم معزول ہونے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ پُرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں ان کی رہائش گاہیں تو ہوتی ہی ہیں۔ دبئی، لندن، واشنگٹن میں بھی ان کے بڑے بڑے بنگلے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے اس قوم پر بہت احسانات ہیں۔ ایک نوزائیدہ ملک کو سنبھالنا، کشمیر میں آزادی کی جنگ کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر کا حصول پھر پاکستان کے دفاع کے لئے بی آر بی نہر کی تعمیر۔
ان کے لاڈلے بیٹے اشرف لیاقت کچھ عرصہ پہلے کینسر سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کا علاج بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکا تھا۔ دوسرے پیارے بیٹے 80سالہ اکبر لیاقت گردے کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ہفتے میں ان کے تین ڈائیلاسز ہو رہے ہیں۔ ان کی عزیز بیٹیاں بہت مشکل سے علاج کے اخراجات برداشت کررہی ہیں۔ اکبر لیاقت نے کبھی اپنے عظیم والد کے حوالے سے اس ملک سے کچھ ناجائز اور غیرقانونی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قائداعظم سے قربت کے مناظر تو اہلِ پاکستان نے اس وقت بھی دیکھے جب قائداعظم کی بیٹی ڈینا پاکستان آئیں تو اس خاندان سے بھی ملیں۔ اکبر لیاقت کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1977کے انتخابات میں ان کے والد کے نام سے موسوم لیاقت آباد میں پی پی پی کا ٹکٹ دیا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سیاست میں کبھی حصّہ نہیں لیا۔ شہید بےنظیر بھٹو نے بھی پیشکش کی مگر آج کی سیاست پیسہ مانگتی ہے۔ اُردو زبان کے حوالے سے انہیں جب لسانی سیاست میں شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے انکار کیا تھا۔ ان کی بیگم درّ لیاقت ان دنوں ان کی دیکھ بھال کررہی ہیں۔ انہیں اپنی والدہ کے گھر لے آئی ہیں۔ وہ پورے پاکستان کے ایک وزیر خارجہ حمید الحق چوہدری کے بھائی کی نواسی ہیں۔ باتھ آئی لینڈ میں ان کا اپنا فلیٹ فروخت ہو چکا ہے۔ اکبر لیاقت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مل ہل اسکول انگلینڈ، کنگز کالج لندن سے فارغ التحصیل ہیں۔
میں بھی ان حالات سے بےخبر تھا۔ پنڈی سے ایک انتہائی درد مند بزرگ پاکستانی ضیاء الدین صاحب نے اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ اس ہفتے پھر میری بیگم اکبر سے فون پر گفتگو ہوئی۔ کووڈ 19کی وجہ سے ملاقات نہیں ہو پا رہی ہے۔ میں تو عیادت کے لئے حاضر ہو کر پھول پیش کرنا چاہتا تھا۔ اکبر لیاقت بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ وزن تیزی سے کھو رہے ہیں۔ بیگم بتا رہی ہیں کہ اب وہ بغیر سہارے کے نہیں چل سکتے ہیں۔ بہت پہلے بحریہ کے ملک ریاض نے ان کے علاج کے سلسلے میں ایک بار خطیر رقم کی ادائیگی کی تھی۔ اہلِ خانہ ان کے ممنون ہیں۔
میں اکبر لیاقت سے مل کر قائداعظم کی شفقت کے سنہرے واقعات جاننا چاہوں گا۔ پاکستان کے 74سال میں پورے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا خاندان کیسے کیسے مشکل حالات سے گزرا۔ آدھے پاکستان کے وزرائے اعظم نے کبھی ان کی خبر لی۔ اب وفاقی حکومت، سندھ کی صوبائی حکومت کا کوئی بڑا چھوٹا ان کی مزاج پرسی کے لئے آیا۔ پاکستان میں مریضوں کی اعانت کے لئے بہت سے ادارے مصروفِ عمل ہیں۔ تاجروں صنعت کاروں کی انجمنیں ہیں۔ لیاقت علی خان ان سب کے محسن تھے۔ ان سے بھی وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اکبر صاحب سے ملاقات کریں۔ صدر پاکستان عارف علوی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کسی وقت اکبر میاں کی عیادت کے لئے ڈیفنس میں ان کے گھر تشریف لے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی مزاج پرسی کرنی چاہئے۔ وفاقی حکومت ڈاکٹروں کا ایک پینل تشکیل دے سکتی ہے جو یہ طے کرے کہ کیا اکبر صاحب کے گردوں کا ٹرانسپلانٹ ممکن ہے یا اور کوئی تدابیر جن سے ان کو راحت مل سکے۔
عام پاکستانی بھی ان کو خوبصورت گلدستے پہنچا سکتے ہیں جس سے ان کو تسکین پہنچے کہ پاکستان والے پاکستان کے پہلے خوددار، ایماندار وزیراعظم کے اہلِ خاندان کو فراموش نہیں کر چکے ہیں۔