• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر الیکشن ہوا کے دوش پر رکھا ہوا چراغ جب ثابت ہوگا تب ہوگا مگر وہ سیاسی جماعت جس کے پاس نظریاتی ہونے کا حقیقی سرٹیفکیٹ موجود ہےاور جس نے کشمیر کاز کو کبھی پیٹھ نہیں دکھائی، پھر سید علی گیلانی سے جن کا زمینی و آسمانی رشتہ ہے، وہ قبل از انتخابات ہوا کے دوش پر رکھا ہوا چراغ ثابت ہوگئی، اسے بدقسمتی کہیں نہ کہیں مگر خوش آئند کہنا بہرحال محال ہے! امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کی پی ٹی آئی کے حق میں انتخابی دستبرداری کا معاملہ کوئی انہونی نہیں، پچھلی دفعہ وہ باغ میں نون لیگی امیدوار کے حق میں دستبردار ہوئی تھی۔ فرق بس یہ ہے کہ پچھلی بار جو ہوا وہ تنظیمی و جماعتی فیصلہ تھا جو اب ہوا یہ ’’تبلیغی و ترغیبی‘‘ حسنِ اتفاق ہے۔ حسن تو ٹھہرا حسن، چلمن میں ہو یا آپے سے باہر۔ رشید ترابی جس حسن سے گھائل ہو کر نیم مردہ سیاسی تشویش ناک حالت میں آگئے ہیں ہمیں ان پر ترس آرہا ہے کیونکہ اب حسن اس قدر جان لیوا ہو چلا کہ ننگی شمشیر ہو جیسے۔ حسن پر وہ پرانا زمانہ نہیں رہا کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ جو بھی ہے ترابی صاحب آشنا تھے کہ تنظیمی سلسلوں میں جتنا بھی پردہ ہو تاہم چلمن سے لگے بیٹھے رہنا ممکن نہیں۔ اور نہ وہ اس شگفتگی و موسیقیت کا بہانہ بنا سکتے ہیں کہ:

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے۔ جو ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘ اس فرمانِ الٰہی کا تعلق خواص و عوام سے ہے اور اطلاعاً عرض ہے کہ سیاستدان خواص سے ہیں۔ سو نظریہ اور منشور کے کنوئیں سے جب تک لوگ پانی نہ بھرنا شروع کریں تب تک سیاست زرخیز ہوتی ہے نہ سیاستدان ثمربار۔ جماعت اسلامی کو جس ڈینٹ کا سامنا ہے وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر جو گھاؤ ترابی صاحب نے دیا اور کھایا ہے اس کا چرچا سرحد کے اس پار بھی ہوگا۔ 25جولائی 2021کی فتح کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس سے یار لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر دونوں طرف بسنے والے کشمیریوں کی لاج رکھنا ضروری ہے۔ ہم بار ہا ٹاک شوز میں تین باتیں دہرا چکے:

(1) کشمیریت پر کمپرومائز کرنا کشمیر اور کشمیریوں سے ناانصافی ہوگی۔ (2) اسلام آباد حکومت صوبے کی بات کرنے لگی ہے اور نون لیگ خودمختاری کی جبکہ پیپلزپارٹی سمیت کسی بھی پارٹی کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ والا نعرہ ہی یاد نہیں۔ (3)انتخابات کو جمہوری بنائیں اور مدِنظر رکھیں کہ عمران خان مودی کی جیت کی دعائیں کرتے رہے کہ وہ کشمیر کے حل کی وجہ بنے گا۔ جانے کیوں ہم سیاق و سباق بھول جاتے ہیں؟ اور ہم آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں بھارت کے دفعہ 370کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی ضرب کو بھی فراموش کر بیٹھے؟

جن جن کو کشمیر کا مقدمہ خارجی محاذ پر لڑنا تھا وہ آزاد کشمیر کی داخلیت پر نظریں مرکوز کئے بیٹھے ہیں، بات صرف ترابی صاحب کی نہیں کہ وہ اس قاضی حسین احمد کو بھی بھول گئے جو 5فروری کے اظہارِ یک جہتی اور کشمیر فہمی کا استعارہ بنے، یہاں تو لوگ قائداعظم اور قائد عوام کو بھی بھولے بیٹھے ہیں، خالد ابراہیم ایک چراغ تھا وہ بھی گل ہو گیا اور کے ایچ خورشید کی کرنوں کا ایکوسسٹم الگ آبدیدہ ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ کشمیر کاز کہیں دور چوٹیوں پر بیٹھا وادیوں کی سردمہری اور جھرنوں کی نوحہ گری پر ماتم کناں ہے! سردار قیوم و سردار ابراہیم کا خانوادہ ’’پولیٹکلی ڈیجیٹل‘‘ ہو چکا، چوہدری عبدالمجید و راجہ فاروق حیدر و بیرسٹر سلطان محمود و سردار عتیق فقط کھوئے ہوئے مقام کے متلاشی ہیں۔ سیاست متبرک اور متحرک عمل ہے اور جمہوریت آزادیٔ رائے و انسانی حقوق کی دھڑکن، منزل کا متلاشی ہونا بھی فرض ہے مگر مشن کی منزل کسی حرص و ہوس کی نہیں۔ قیادت قوم کو اعتماد میں لے کر مشن کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے صرف اپنی ذات کیلئے نہیں! اور کشمیری رہنماؤں کو تو کشمیریت کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا، معذرت کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر کو ایک بھی بین الاقوامی توانا سیاسی آواز میسر نہیں جس کی بازگشت مشرق و مغرب میں اذاں بن کر گونجتی ہو۔ حالیہ الیکشن کا محض شوروغل ہے بین الااقوامی میڈیا کیلئے کوئی متاثر کشش بھی دکھائی نہیں دیتی جس کا پیغام اقوام متحدہ اور مغربی اسکالرز تک جائے، خیر آزاد کشمیر سے مؤثر و بااثر تجزیہ کاروں و کالم نگاروں کی بھی اشد ضرورت ہے جن کے رشحاتِ قلم اور آواز کی دلیل وادی سے گلوبل ویلیج تک کی بند آنکھوں اور کانوں کو کھولتے ہوئے قلوب و اذہان پر دستک دے۔

پچھلے دنوں اپنے ایک پرانے دوست اور فہمیدہ و سنجیدہ صحافی دوست سے بات ہوئی تو وہ مجھے اپنے پرانے نظریے اور حریت پسند قلم کاری و تبصرہ نگاری سے کوسوں دور لگا۔ کہنے لگا ایک لاکھ سرکاری ملازم جو آبادی کے اعتبار سے ہر گھر کا ایک فرد بنتا ہے وہ میرپور سے حویلی یا باغ جائے تو براستہ راولپنڈی جانا پڑتا ہے لہٰذا مجبوریاں ہیں ملازمین کی اور ان کے خاندان کی، اس کے علاوہ ناقابلِ تحریر مجبوریاں بھی انہوں نے بتائیں، پھر مجھے سمجھاتے ہوئے بولے لاہور میں رہ کر آپ خواجہ سعد رفیق کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں، یہ بجلی، وہ پانی، کہیں گیس، کہیں تھانہ کچہری اور کہیں تقرری و تبادلہ۔ پھر ایک نئے لیڈر کی اجتماعی محبت کا ذکرِ خیر اور اس کا کہنا کہ وہ افراد کی مدد نہیں کرتا اداروں کی ہیلپ کرتا ہے۔ یہ سب پاکر اور اپنے کشمیری نظریاتی تجزیہ کار و چشمہ افکار سننے کے بعد مجھے بھی ’’عقل‘‘ آگئی کہ ہوا باندھنا کیا ہوتا ہے۔ ذہن سازی کرنے والا طبقہ بھی جب بیچارگی کی بولی بولے گا تو مسئلہ کشمیر رہا ہی کہاں؟ سب مایا ہے یا مائع ، بھئی! ہم نہیں کہتے سب دوست فرماتے ہیں کہ اکثریت نون لیگ کی ہے اور جیت ’’انصاف‘‘ کی۔ ایسے میں کسی ترابی یا گلابی کا اِدھر اُدھر ’’تبادلہ‘‘ ہو بھی جائے تو کیا ہے؟

بابا! آپ ہی نے تو آزاد کشمیر الیکشن کو ہوا کے دوش پہ رکھا ہوا چراغ بنا رکھا ہے جسے سیاسی و انتخابی افق کا ماہتاب و آفتاب ہونا چاہئے تھا کہ شرق و غرب اسے نظریات و اثرات کی کسوٹی پر پرکھنے پر مجبور ہوتے!

تازہ ترین