پاکستان بگاڑ میں آ چکا ہے، اپنے اس کھیت کو ہم سب نے بطور قوم باڑھ کی طرح کھایا اور اجاڑا ہے۔ یہ 1958ء سے لے کر 2013ء تک، ہمارے بے برکت اجتماعی اعمال کا داخلی کینسر ہے جس کا علاج رحمت خداوندی کے سوا کسی کے پاس نہیں رہ گیا۔ انسانی جدوجہد کی حدود علاج سے یہ کینسر نکل چکا ہے، ہم اجتماعی مکافات عمل کے قدرتی قوانین کی زد میں محسوس ہوتے ہیں، غیروں نے تو جو کیا یا خدا نخواستہ جو کریں گے وہ اپنی جگہ، ہم نے باہم ان پچاس ساٹھ برسوں میں اپنے ہزاروں ہم وطنوں کے خون سے اس ملک کی مساجد، مزار، بازار، دفاعی حصار، گلیاں اور کوچے سرخ کر دیئے۔ درد مندی کے اصل جوہر کے بغیر ”پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا“۔ کہنے سے ہماری چیلنج کرنے کی عادت کے نفس امارہ کا پیٹ بھر جاتا ہے، ہم سادہ لوح پاکستانیوں کو ایسے دعوے کے موقع پر ”پاکستان ٹوٹ چکا ہے“ کی ناگزیر سچائی یاد نہ دلا کر اپنی ذہانت یا چالاکی کو داد دے لیتے ہیں۔ یہ ہمارا روز مرہ مشغلہ ہے جو صاحب اختیار یا دانشور اقتصادی لحاظ سے جتنا زیادہ ”اپ ڈیٹ“ ہے وہ اتنا ہی زیادہ اس شریر شغل کی منحوس شرارت میں مصروف رہتا ہے، جن لوگوں کو اپنے وطن کی ریاستی سرحدوں کے درندہ صفت انسانی لہو سے لتھڑے ”یاجوج ماجوج“ کے قدموں کی چاپیں سنائی دے رہی ہیں، حقیقی معنوں میں صرف وہی ”پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا“ کی تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے ابوعبداللہ روتے رہیں گے، یہ صرف یتیم ہی نہیں مسکین بھی ہیں۔ عالمی اسلام سمیت پوری دنیا میں کوئی پاکستان کی ماں بننے کو تیار نہیں، یہی ضیاء الحق کا 5جولائی 1977ء ہے!پاکستان اور عالم اسلام کے جس قوم پرست بطل حریت ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء نے تختہ دار تک پہنچایا جس کے بعد واقعی ہمالہ اشک بار اور پاکستان لہو رنگ ہے، اس ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی سے فرانس کے صدر جسکارڈ کو لکھا تھا: ”مجھے قتل کیا گیا تو میرا لہو برصغیر کے نوجوانوں، مردوں اور عورتوں کے چہروں پر وہ سرخی بن کر ابھرے گا جو بہار کے موسم میں فرانسیسی گلاب کی پتیوں میں جھلکتی ہے“۔
اور جنرل ضیاء کو دوران مقدمہ قتل مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”میرا مقام ستاروں پر رقم ہے، میرا مقام بندگان خدا کے دلوں میں ہے، میں محکوموں اور نوکروں کا نمائندہ ہوں۔ میری رائے میں یہ عوام ہی ہیں جو مملکت کو مناسب اور صحیح تحفظ و سلامتی فراہم کر سکتے ہیں، میں مفلوک الحال اور بے گھر لوگوں کی نمائندگی کرتا ہوں اور تم امیروں کی نمائندگی کرتے ہو۔ میں قومیانے پر یقین رکھتا ہوں اور تم قومیائی گئی اشیاء کی واپسی پر یقین رکھتے ہو۔ میں ٹیکنالوجی پر یقین رکھتا ہوں، تمہارا الایمان ریاکاری ہے، میرا دستور پر یقین ہے تم سمجھتے ہودستور کاغذ کا ایک پرزہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مُلا کا مقام مسجد ہے تم اسے پاکستان کا مالک بنا دینا چاہتے ہو، میں خواتین کی آزادی چاہتا ہوں تم انہیں اندھیروں میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو“۔
”ہم ایک دوسرے سے قطبین کی دوری پر کھڑے ہیں اور میں اس دوری پر خدا کا شکر بجا لاتا ہوں، تم تو تعفن زدہ ماضی کی بھی نمائندگی نہیں کرتے۔ میں مستقبل کی درخشانیوں کا نمائندہ ہوں، تم نے تو ہمارے مقدس مذہب کی تبلیغ کو پراگندہ کر دیا ہے یہاں تک کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت پورے منتقانہ قہر کے ساتھ شروع ہو گئی ہے۔ جب تم پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہو تو براہ کرم ہمیں بتا دو تم پاکستان کو غرناطہ بنا دینا چاہتے ہو یا کربلا؟“
آج پاکستان غرناطہ اور کربلا کے درمیان کھڑا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کے اقدام کے بعد پھانسیوں، کوڑوں کی جان لیوا سزاؤں، لسانی اور نسلی جماعتوں کی تشکیل، غیر جماعتی انتخابات اور افغان جہاد کے ذریعے قومی یکجہتی کی تسبیح کو ایک اطمینان بخش ذہنی اطمینان کے ساتھ ساتھ دانہ دانہ بکھیر دیا۔ جنرل اپنے تمام حکومتی اقدامات کو بشمول ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بہ نظر تحسین دیکھتے تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کے بعد حد درجہ کے قانونی جبر و تشدد جس کے ڈانڈے صریح ظلم و شقاوت سے ملتے تھے، متحمل مزاج جوڑ توڑ اور اپنی خامیوں کے برملا اعترافات کی ہوشیاری کے تین ہتھیاروں سے اپنے سیاسی اور فکری مخالفین کو پاکستانی عوام سمیت زندہ درگور کر دیا۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں پاکستانی قوم مجموعی طور پر ملکی نظام کے بارے میں شکست خوردہ اور اپنے اور ملک کے مستقبل کے سلسلے میں لاتعلق ہونا شروع ہوئی۔ جنرل صاحب نے آئینی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بلاکسی غصے یا جھنجھلاہٹ کے اپنے اس خیال کا پرچار کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا کہ قوم میں جو کوتاہیاں ہیں یا اس پر جو مصیبتیں ٹوٹتی ہیں یہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہیں، یوں وہ اول روز سے ہی سربراہ مملکت کے طور پر خود کو بری الذمہ قرار دینے میں کامیاب رہے جسے پاکستانی عوام نے نظریاتی طور پر نہ سہی عملی طور پر قبول کر لیا، عملاً اس لئے کہ پانچ جولائی 1977ء سے لے کر 17 اگست تک ملٹری بیورو کریسی، سول بیورو کریسی اور عوام کو جس طرح برباد کیاگیا وہ لوگوں کے گریبان پھاڑ کر، زندگی اور موت سے بے پرواہ ہو کر سڑکوں پر آنے کے لئے کافی تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ کوئی بھی اور کسی بھی درجہ کی اجتماعی لہروں کو حد درجہ منظم بہمیت کے ساتھ ختم کر دیا جاتا۔ جنرل ضیاء نے ”تھوڑا سا تشدد“ اور ”تھوڑی سی نرمی“ کے بجائے مکمل بربریت کا اصول اپنایا، اس اصول کو پورے حساب کتاب کے ساتھ عمل میں لایا گیا، چنانچہ ضیاء کسی قسم کی بین الاقوامی اور قومی تائید کے بغیر خالصتاً قوت کے بل بوتے پر پورے گیارہ برس تک حکمران رہے۔ پاکستان کے جسم و جاں میں بچے رہنے والی انرجی جمہوریت کے انتظار کے جہنم کی نذر ہوتی رہی لیکن پاکستانیوں کو زوال، حسرت، توہین اور بے چارگی ہی نصیب ہوئی۔ بالآخر جنرل ضیاء الحق پاکستان کی عالمی برادری میں مشکوک ملک اور قومی سطح پر مذہبی عفریت کے بحران پر مشتمل موت آسا پاکستان دے کر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں!آج جولائی 2013ء ہے، ایک 5 جولائی 1977ء ایک 17 اگست 1988ء، دونوں کے درمیان 4اپریل 1979ء کی شب کے آخر حصے میں پھانسی کا جھولتا ہوا رسہ ہر برس ہم دیکھتے ہیں، 5 جولائی 1977ء اور چار اپریل 1979ء، یادوں، آہوں اور ضیاء کے بے فیض عہد حکمرانی پر پاکستانیوں کے نالہ ہائے آہ و فعاں، پورے ملک کو بیدار کر دیتے ہیں، دوسری طرف 17 اگست 1988ء، جس کی لوح قبر پر اعجاز الحق تنہا دکھائی دیتا ہے۔ یہی تاریخ کا فیصلہ ہے ، ایسا فیصلہ جسے میری نسل کے لوگ اپنی آنکھوں سے عملی طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد جنرل مشرف کے مقدمے نے تاریخ کے ایوان میں مرکزیت حاصل کر لی ہے، میاں صاحب نے 3 جون 2007ء سے آئین سے بغاوت کے جرم عظیم کا جائزہ لینے اور احتساب کرنے کو پاکستان کی خیر و فلاح کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ وہ ایوب، یحییٰ اور جنرل ضیاء کو کلیتہً آئین سے بغاوت کے کبیرہ گناہ کی فہرست سے خارج کر گئے، افسوس اس کے باوجود 5 جولائی 1977ء وہیں پر رہے گا۔