عید گزر چکی، قربانی بھی ہوگئی، ستنت ابراہیمی پر عمل ہوا۔ دھوئیں، پکوان، دوست احباب سے ملنا جُلنا بھی رہا، مگر ان سب مسرتوں کے ساتھ ساتھ کووڈ کی چوتھی لہر کے پھیلنے کا خوف اور تفریح گاہوں کا عام آدمی کے لیے بند ہونا، جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر، صفائی کا فقدان اور موسمی قصائیوں کے ہاتھ قربانی کے جانور کا ستیاناس لگنے نے طبیعت مکدر کردی۔ عید کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اہمیت اپنی جگہ، لیکن گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عید کے رنگ پھیکے ہی رہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے بچھڑنے کا غم، کورونا کے باعث ہونے والی اچانک اموات، بڑی بڑی نامور ہستیوں کا دُنیا سے چلے جانا اور حالیہ دنوں میں خواتین پر ہونے والے بدترین تشدد نے دِل اُداس کردیا ہے۔ ہماری اپنی بہت پیاری فن کارہ، نائلہ جعفری کینسر سے لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلی گئیں، سینئر ٹی وی فن کارہ، سلطانہ ظفر بھی امریکا میں انتقال کرگئیں۔
حیدرآباد سندھ میں شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی قرۃ العین اور اسلام آباد میں دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والی نور کے دُکھ نے بھی ہمیں ہلا کے رکھ دیا ہے۔ یُوں لگتا ہے کہ موت کے خوف ناک پنجے نے جکڑ رکھا ہے۔ اگرچہ ایک دن سب کو مرنا ہے، مگر یُوں بہیمانہ طریقے سے کسی کو موت کی نیند سلانا، کسی بھی حساس دل کو بے سکون کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہم سب کو نائلہ جعفری کی موت کا بہت صدمہ پہنچا ہے۔ وہ عرصے دراز سے بیمار تھیں۔ تن تنہا، ایک بہادر عورت، اپنی بیماری اور سماج کی بیمار ذہنیت سے نبردآزما تھی۔ سرطان پھیلا تو ڈاکٹروں نے صاف ہوا اور اچھی غذا کا مشورہ دیا، نائلہ نے سامان سمیٹا اور گلگت چلی گئیں۔ وہاں ان کو صاف اور تازہ آب و ہوا کے ساتھ ساتھ اچھی غذا بھی کھانے کو ملی۔ بعض ٹی وی چینلز نے گلگت جاکر ان کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ ان کے حالاتِ زندگی، ان کے مسائل، ٹی وی پر نشر کیے۔ ناظرین کو معلوم ہوا کہ اُن کی پسندیدہ فن کارہ کس حال میں زندگی گزار رہی ہیں۔
پھر سوشل میڈیا پر ان کے گھر اور گاڑی پر پتھرائو کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ نائلہ جعفری نے وہ ویڈیو خود اپنے موبائل سے بنائی تھی۔ بیچاری بہت پریشان تھیں اور خوف زدہ بھی! فن کار برادری نے نائلہ کے لیے آواز اٹھائی۔ نائلہ نے جواں مردی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ انہیں اپنے علاج کے لیے باربار اسپتال میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ بستر علالت پر زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا نائلہ جعفری کو پچھلی حکومت کی جانب سے مدد کی پیش کش ہوئی، جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ رد کردی بعد میں جب نائلہ کی حالت ابتر ہونے لگی اور میڈیا میں نائلہ جعفری کی بیماری، ان کی پریشانی کی خبریں آنا شروع ہوئیں، تو سرکار کی جانب سے ان کی مدد کا اعلان ہوا۔
نائلہ بہت خوددار اور حساس فن کارہ تھیں۔ انہوں نے کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا۔ ہاں انہیں شکوہ تھا کہ فن کاروں کو ان کے ڈراموں کی رائلٹی نہیں دی جاتی۔ اگر رائلٹی ملتی، تو معاشی مسائل پیدا نہ ہوتے۔ سرطان کا علاج مہنگا اور صبرآزما ہوتا ہے۔ طویل علاج، اسپتال اور دوائوں کے خرچے کے باوجود، نائلہ جعفری ہمیشہ پُرعزم اور حوصلہ مند رہیں، اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا، کبھی کسی کی شکایت نہیں کی، نہ کسی سے کچھ مانگا۔
نائلہ جعفری ہماری پرانی دوست تھیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے ’’جِسے پیا چاہے‘‘ میں ہم نے اکٹھے کام کیا تھا۔ اس ڈرامے میں ہمارے علاوہ سمیع ثانی اور سلطانہ ظفر بھی تھیں۔ سلطانہ ظفر ہماری ساس کا کردار نبھا رہی تھیں۔ بہت اچھی آرٹسٹ، بہت ملن سار خاتون تھیں۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے بہت سے ڈراموں میں کام کیا جن میں ’’تنہائیاں‘‘ ’’رنگِ حنا‘‘ اور ’’عروسہ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سلطانہ ظفر کا بھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ اُن کے ڈراموں میں ’’تنہائیاں‘‘ سرفہرست ہے، جس میں وہ شہناز شیخ اور مرینہ خان کی والدہ کے کردار میں جلوہ گر ہوئیں۔ ساڑھی ہمیشہ سے اُن کا پسندیدہ پہناوا رہا، ڈراموں میں بھی وہ دیدہ زیب رنگوں اور ڈیزائن والی ساڑھیاں زیب تن کیا کرتی تھیں۔ برسہا برس سے وہ امریکا میں مقیم تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیلاس میں وہ ایک بوتیک چلا رہی تھیں۔ امریکا اپنے بچوں کے پاس عرصہ قبل منتقل ہوچکی تھیں اور شوبزنس سے دُور تھیں۔ سلطانہ ظفر کے شریک حیات ظفر بھی ڈراموں میں شوقیہ اداکاری کیا کرتے تھے۔
انہوں نے زیادہ تر شاہزاد خلیل کے ڈراموں میں کام کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر ’’نشان حیدر‘‘ کے نام سے چلنے والے ڈراموں کے عظیم الشان سلسلے جس میں افواج پاکستان کی وطن عزیز کے لیے قربانیوں اور خدمات کو اجاگر کیا گیا تھا اور جس میں نشان حیدر پانے والے بہادر اور عظیم شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا، اس میں انہوں نے عمدہ کام کیا۔ ظفر صاحب نے پائلٹ آفیسر راشد منہاس، نشان حیدر میں راشد منہاس کے والد کا کردار بہ خوبی نبھایا۔ اس ڈرامے میں نیر کمال، ہما اکبر، یاسمین اسمٰعیل اور مرینہ خان نے بھی کام کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ مرینہ خان کا پہلا ڈراما تھا۔ ظفر صاحب کے دیگر ڈراموں میں ’’تنہائیاں‘‘ بھی قابل ذکر ہے۔ ’’تنہائیاں‘‘ میں انہوں نے اکبر ایڈووکیٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی کے یہ ستارے بہت عرصے سے منظر سے غائب تھے، پھر اچانک سلطانہ ظفر کے انتقال کی خبر آئی، تو افسوس ہوا۔ ’’جسے پیا چاہے‘‘ میں سلطانہ ظفر، نائلہ جعفری اور ہم ساتھ تھے۔ ہماری بہت اچھی یادیں جڑی ہیں ان دونوں سے…!
نائلہ جعفری نے ریڈیو پر بھی بہت کام کیا، ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ پی ٹی وی پر قاسم جلالی کا ایڈز کے موضوع پر بننے والا شاہ کار معلوماتی ڈراما ’’کالی دیمک‘‘ میں نائلہ جعفری نے جَم کے اداکاری کی۔ انہوں نے نجی چینلز پر پیش کیے جانے والے ڈراموں میں بھی عمدہ کردار نگاری کی۔ ’’آ مجھ کو ستانا‘‘ ’’دیسی گرلز‘‘ ’’تھوڑی سی خوشیاں‘‘ ’’عنایہ تمہاری ہوئی‘‘ کے علاوہ بہت سے ڈرامے ہیں، جن میں نائلہ جعفری نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ نائلہ جعفری کا ہمارا ساتھ آرٹس کونسل میں بھی رہا۔
انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور آرٹس کونسل میں فعال رہیں۔ ہم نے نائلہ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے، دھیمے لہجے میں بات کرتے دیکھا۔ کئی سال قبل ہم سب سید کمال کا ’’ایکٹنگ چیلنج‘‘ کررہے تھے، اس میں ہمارے ساتھ غالب کمال کمپیئر، جب کہ نائلہ جعفری ان نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے اڈیشن کیا کرتی تھیں، جو ’’ایکٹنگ چیلنج‘‘ میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ نائلہ جعفری آج ہم میں نہیں، سرطان کا موذی مرض اس پیاری سی لڑکی کی جان لے گیا۔ آہ… نائلہ! تمہاری بہت یاد آئے گی۔ اللہ درجات بلند کرے اور تمہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!