سندھ ہائی کورٹ نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی اور اپنے فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ ماتحت عدالت ریفرنس کا فیصلہ جلد کرے۔
عدالتِ عالیہ نے خورشید شاہ کی ضمانت سے متعلق 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بڑی حیران کن بات ہے کہ خورشید شاہ کو تمام سہولتیں اسپتال میں ملی ہوئی ہیں، جس شخص نے ایک دن بھی جیل میں نہیں گزارا، اس کی ضمانت جیل میں مشکلات کی بناء پر کیسے منظور کی جا سکتی ہے؟
عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ ہمارے نظام کی خرابی ہے کہ ایک قیدی جیل میں سڑتا رہتا ہے، دوسرا قیدی سیاسی اثر کی وجہ سے تمام سہولتیں حاصل کرتا ہے، دونوں قیدیوں کی تکالیف میں بڑا فرق ہے۔
فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ ایسا قیدی جو سہولتیں حاصل کرتا ہے اس کی ضمانت ہارڈ شپ پر کیسے منظور کی جا سکتی ہے؟ خورشید شاہ کا سب جیل میں رہنا ہمارے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
عدالتِ عالیہ کا فیصلے میں کہنا ہے کہ 9 نومبر 2019ء کو خورشید شاہ کا عدالتی ریمانڈ ہوا، اسی روز سندھ حکومت نے این آئی وی ڈی سکھر کو سب جیل قرار دے دیا۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ سب جیل میں نارمل زندگی گزار رہے ہیں، ان کے وکیل نے کسی بیماری سے ان کی زندگی کو خطرے سے متعلق دلائل نہیں دیئے۔
سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ مطلب، خورشید شاہ سب جیل میں تمام سہولتیں لے رہے ہیں، سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تمام سہولتیں لی جا رہی ہیں۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کو 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا پورا موقع دیا جائے، آئندہ سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور نہ کی جائے، ٹرائل کورٹ دلائل سن کر ریفرنس کا میرٹ پر فیصلہ کرے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ عدالت خورشید شاہ کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتی ہے۔
واضح رہے کہ رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے اور ان کے خلاف ریفرنس احتساب عدالت سکھر میں زیرِ سماعت ہے۔