آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا اور ملاقات کا وقت مانگ لیا۔
خط میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کئی مواقع پر شوگر انڈسٹری کو کارٹیل کہا۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خط میں عمران خان سے کہا کہ آپ کو ہمارے حوالے سے مس گائیڈ کیا گیا ہے۔
ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ہم آپ کو ملک کی دوسری بڑی صنعت کے خلاف مہم سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
خط میں ایسوسی ایشن نے چینی کی قیمتوں میں حکومتی جواز مسترد کردیا جبکہ قیمتوں میں اضافے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں چینی کی بروقت درآمد نہ کرنے کا ذمہ دار شوگر ایڈوائزری بورڈ کو قرار دے دیا۔
خط میں ایسوسی ایشن نے وقت سے پہلے کرشنگ اور کم پیداوار کا ذمہ دار وفاقی وزیر حماد اظہر اور ان کے ساتھ غلط بیانی کرنے والوں کو قرار دیا۔
شوگر ایسوسی ایشن نے کہا کہ کئی باردرخواست کے باوجود آپ کے دفتر نے ہمیں سننے کا موقع فراہم نہیں کیا۔
خط میں کہا گیا کہ ملاقات میں شوگر انڈسٹری کے خلاف جاری مہم سے متعلق آگاہ کرنا چاہتے ہیں، حقائق مسخ کرکے شوگر انڈسٹری کو بدنام کرنے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔
خط میں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ مہنگے گنے کی خریداری، سیلز ٹیکس، ورکنگ کیپٹل میں اضافہ قیمت میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خط کے ذریعے طویل المعیاد شوگر پالیسی بنانے کی تجویز دے دی اور بتایا کہ ملکی جی ڈی پی میں شوگر اندسٹری کا سالانہ 484 ارب روپے کا حصہ ہے۔
خط میں بتایا کہ شوگر کی صنعت سالانہ 80 ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے، چینی کی قیمت سے متعلق ہماری تحریری تجاویز ہیں۔
شوگر ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس صنعت کے خلاف 1967 میں مہم شروع ہوئی جب چینی 50 پیسے فی کلو تھی۔
خط میں بتایا کہ ہماری گنے کی خریداری میں مڈل مین کا رول ختم کرنے کی تجویز مسترد کردی گئی، کسانوں کو چیک کے ذریعے ادائیگیاں، گنے کی تیار فصل پر کرشنگ کی تجاویز کو نظرانداز کیا گیا۔
خط کے متن کے مطابق وزیراعظم سے کہا گیا کہ مالی سال 19-20 میں چینی پر سیلز ٹیکس 8 روپے سے بڑھا کر 17 روپے کردیا، جس کے باعث چینی کی فی کلو قیمت 80 روپے پر پہنچ گئی۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خط میں کہا کہ یہ درست نہیں کہ اضافی چینی کی برآمدات سے قیمت میں اضافہ ہوا، برآمد کے باوجود چینی کی قیمت 90 روپے سے کم ہو کر 55 روپے پر آئی۔