وزیرِ اعظم عمران خان نے نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی کے لیے دو منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن سے ملک میں بے روزگاری کے خاتمے اور معاشی بحران کے حل میں مدد ملے گی ۔ نوجوانوں کے نام ایک خصوصی وڈیو پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت زیادہ ملازمتیں نہیں دے سکتی ۔ پہلے ہی اتنے لوگ بھرتی کیے جاچکے ہیں کہ ان کی پنشن کا بل ہی ملک کو نیچے لے جارہا ہے۔ اس لیے نوجوان اپنا کاروبار کریں۔حکومت نے ان کی ہنر مندی کی تعلیم کے لیے ایک لاکھ 70 ہزار وظائف کا انتظام کیا ہے۔نوجوان چھ چھ ماہ کے ہائی ٹیکنالوجی کورسز مکمل کر کے اتنی بہتر نوکریاں حاصل کر سکیں گے جو ان کی سوچ سے بھی اچھی ہوں گی۔
حکومت 50ہزار نوجوانوں کو ہائی ٹیکنالوجی کورس کرنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ ایسے دو خصوصی پروگرا موں کے لیے ایک کھرب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ساری دنیا میں روز گار نجی شعبے میں ملتا ہے۔ لوگ خود اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور درمیانے اور متوسط درجے کی صنعتوں میں روز گارحاصل کرتے ہیں۔جن نوجوانوںکے پاس آئیڈیاز ہیں وہ ہنر مند بننے کے لیے درخواستیں دیں۔حکومت انہیں قرضے دے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ روز گار کے لیے نوجوانوں کو صرف سرکاری نوکریوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کے پاس اتنی نوکریاں نہیں ہوتیں، اس لیے نوجوانوں کو مختلف ہنر سیکھنے خصوصاََ جدید ٹیکنالوجی کے کورس کرنے چاہیں ،تاکہ نجی شعبے میں روزگار تلاش کرسکیں۔ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کررہی ہے، جس سے نوجوانوں کو فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ حکومت انہیں اس مقصد کے لیے وظائف دے گی ۔
نوجوان قرضے لے کر بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کاروبار کرسکتے ہیں، اس سے نہ صرف وہ مالی اعتبار سے اپنےپاؤں پر کھڑے ہوسکیں گے بلکہ ملکی معیشت کے استحکام میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔اگر چہ ماضی میں بھی حکومت وقت نے نوجوانوں کے لیے مختلف منصوبے بنائے لیکن ان پر صحیح طرح عمل درآمد نہ ہوسکا۔ یوں قیمتی وسائل اور محنتیں ضائع ہوئیں اور مسئلہ، مسائل بن کر ایک نہ حل ہونےوالی مصیبت بن گیا۔ موجودہ حکومت کے پیش کردہ پروگرام اپنی جگہ بہت اچھے ہیں، مگر کیا ان پر عمل ہوسکے گا؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہنر مندی کی تعلیم حاصل کر کے روزگار ملنے کی کیا ضمانت ہے ،جبکہ قرضہ لے کر کاروبار شروع کرنے میں بھی ایک سال سے زیادہ وقت در کار ہوگا جب جا کر نتائج سامنے آئیں گے۔
اقرابا پروری ،رشوت ،سفارش ،دھونس دھمکی جیسے ماحول میں ان منصوبوں پر کیسےعمل درآمد کیا جائے گا؟یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اگر عمل ہوجاتا ہے تو بہت خوش آئند بات ہوگی، اس سےچند ہزارنوجوان ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے توہزاروں لوگوں کا بھلا ہوجائےگا ۔لیکن اس کے لئے اعتماد کی فضا اور کاروبار کرنے کی فضا بنانی پڑے گی ۔ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ جتنی رقم دی جائے گی اس سے اس وقت پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں ہوسکتا۔ دکانوں اور مکانوں کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی دکان نہیں کھولی جاسکتی، بغیر فنی تعلیم کے چھوٹی دکان لے کر ادھار پر سامان لے کر بھی کاروبار کرنا مشکل ہوتاہے کیونکہ روزانہ کے اخراجات بھی ہوتے ہیں، یہ زمینی حقائق ہیں۔
کیا ہی ا چھا ہو اگر، پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلہ نہ ملنے والے طلباء یا وہ نوجوان جو دوسرے شعبوں میں مجبوراً داخلہ لے کر بے سمت تعلیم حاصل کررہے ہیں ، اُنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ یا فنی تعلیم گھریلو ذمہ داریوں سے متعلق تعلیم، میڈیکل، آفس اور مختلف اداروں میں مڈل کیڈر کی ورک فورس کی تعلیم دی جائے۔ یوں ہمارے پاس افرادی قوت پیدا ہوجائے گی پھر ان کو چھوٹے قرضے دیئے جائیں، یہ ورک فورس گھریلو انڈسٹری چلا کر با عزت روزگار کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔یہ بھی بہت ضروری ہے کہ قرضے امیدوار سے کونسلنگ کے ذریعہ دیئے جائیں، خاص طور پر ایک سطح پر قرضے ان نوجوانوں کو دیئے جائیں جو پہلے سے کاروبار کر رہے ہیں،مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار بڑھا نہیں پارہے۔
چھوٹا قرضہ اگر ان کے کاروبار میں وسعت کا سبب بن سکتا ہے اور چلتے کاروبار میں سرمایہ کاری سےاس کے ڈوبنے کے امکانات کم ہوں گےپھر قرضے کی واپسی بھی آسان ہوگی، ایسے کاروبار سے غیر ہنرمند، ہنرمند، غیر تعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ سب کے لئے روزگار کے مواقعے پیدا ہوںگے، اس طرح بنیادی مقصد روزگار کی فراہمی میں کامیابی ہوگی۔ ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کے لیے درست منصوبہ بندی ہی کامیابی کی ضامن ہے۔
بعض باتیں اور رقوم کاغذوں پر ہی اچھی لگتی ہیں، مگر عملی طور پر نتیجہ صفر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نوجوان جنہوں نے ابھی فنی تعلیم حاصل کی ہے یا تعلیم حاصل کررہے ہیں یا تعلیم چھوڑ کر کسی جگہ چھوٹی نوکری کررہے ہیں انہیں کاروبار کرانا، قرضہ دینا صرف وسائل کا زیاں اور نوجوانوں کو قرضے میں جکڑنا ہے۔
ملک میں اس وقت بےروزگار نوجوانوںکی شرح بڑھتی جارہی ہے اس میں ڈگری ہولڈرز کی تعداد زیادہ ہے ۔ اس وقت تقریباََ40لاکھ کی ملازمتوں کی ضرورت ہے جبکہ ہر سال 10لاکھ لوگ اس پول میں شامل ہو رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک نوکری کےلئے کئی کئی لاکھ امیدوار ہیں کس طرح ان کی چھانٹی ہو گی …؟چند ہزار نوجوان ہی حکومتی منصوبوںسے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
بہتر ہوگا کہ قریبی علاقوں میں مطلوبہ صنعتیں لگائی جائیں۔ مقامی چھوٹی صنعتوں میں موسمی خام مال اور مقامی مال سے بننے والی چیزوں کی ترقی کے لئے اُن چیزوں کی در آمد پر پابندی لگادی جائے۔ اگر نوجوان چھوٹی چھوٹی انڈسٹریاں لگا لیتے ہیں تو ایک طرف یہ ان کے لئے ذریعہ آمدن ہوں گی، دوسری طرف بے روزگاری ختم ہو گی۔پھر یہ انڈسٹریاں ہزاروں لاکھوں لوگوں کے گھروں کا چولہا جلنے کا سبب بنیں گی، یوں ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے دوسرے ممالک کے محتاج نہیں ہوں گے۔ جب ہم خود کفیل ہو کر درآمدی مصنوعات کی بجائے میڈ ان پاکستان کو ناصرف اپنائیں گے بلکہ ان کی برآمدات بھی شروع کر دیں گے۔ تو ذرا سوچیے کہ ہمارا ملک کیسے ترقی کی منازل عبور کرے گا۔
سی پیک ہمارے لئے تحفہ ہے اس کے راستوں کے گرد کاروباری ماحول اور قابل کاروبار کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی ٹیم بنائی جائے جو مستقبل میں پیدا ہونے والے کاروبار کی تصوراتی شکل تیار کرائے پھر ویسا ہی تعلیمی، فنی نظام تشکیل دیا جائے۔ اگر ہم سنجیدہ ہوکر زمینی حقائق کے مطابق کام کریں گے تو بے پناہ کامیابی مل سکتی ہے اس کے لئے تحقیق کو ترقی کا زینہ بنانا پڑے گا۔