• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت چھپانے کے باوجود بھی ایبٹ آباد انکوائری کمیشن رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے۔ اب شاید اس بات پر ایک اور انکوائری کمیشن بنے گا کہ یہ رپورٹ کیسے اور کیوں منظر عام آئی۔ اس رپورٹ میں کسی کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے لہٰذا رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے اصولاً کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے لیکن یہی بات کچھ لوگوں کے لئے پریشانی کا سبب بن رہی ہے کیونکہ رپورٹ کا یہی ایک پہلو ہے جو مذکورہ رپورٹ کو ”کلاسیفائیڈ“ بنانے یعنی خفیہ رکھنے کا جواز ہوسکتا ہے ورنہ رپورٹ میں کوئی دوسری ایسی بات نہیں ہے جس پر دنیاکو حیرت ہو۔
ایبٹ آباد میں 2 مئی 2011ء کو امریکی ہیلی کاپٹر آئے، انہوں نے کافی دیرتک اس قلعہ نما عمارت میں آپریشن کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مار کر وہاں سے ان کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران پاکستان کے کسی دفاعی ادارے اور سویلین ادارے کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ امریکی افواج ہمارے ملک کے اندر گھس کر کارروائی کررہی ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ اس صورتحال کی ذمہ داری کا تعین کرسکے کیونکہ پوری قوم کو اس بات پر تشویش تھی کہ ایک غیر ملکی فوج نے پاکستان میں آکر کارروائی کی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا ۔ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا فطری امر تھا کہ اس ملک کا کیا ہوگا جس کے پاس ایٹمی اثاثے بھی ہیں مگر ایبٹ آباد کمیشن نے قوم کی توقعات کے برعکس نہ تو ذمہ داری کا تعین کیا اور نہ ہی کسی کے لئے سزا تجویز کی۔ کمیشن نے مذکورہ واقعے کو ملٹری اور سویلین اداروں کی نااہلی سے تعبیر کیا۔ یہ بات پوری دنیا میں ہماری شرمساری کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں پاکستان کے عوام کے لئے اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ کسی کو سزا دینے کی سفارش نہیں کی گئی اور رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے وہی لوگ پریشان ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ” سب کو پتہ ہے کہ ذمہ دار کون ہیں“۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کو سب پتہ ہے کیونکہ وہ 66سال سے عذاب مسلسل میں ہیں۔ اس بحث میں الجھنا فضول ہے کہ ایبٹ آباد میں امریکیوں کے آپریشن سے ہمارے ارباب اختیار اور سیکورٹی ادارے بے خبر تھے یا نہیں اور یہ آپریشن ان کی خاموش تائید سے ہوا تھا یا نہیں؟ پاکستان کے عوام کو ان سوالوں میں الجھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں بین السطور پاکستان کے ملٹری اور سویلین اداروں کے کردار پر جومحتاط رائے دی گئی ہے، پاکستان کے عوام کی رائے اس سے زیادہ واضح ہے۔ رپورٹ میں جن بے شمار سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا ہے، پاکستان کے لوگوں کے پاس ان سوالوں کا جواب پہلے سے موجود ہے۔ پاکستان کے لوگ روزانہ اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھا رہے ہیں۔ کراچی ہویا کوئٹہ ، لاہور ہو یا پشاور، پاکستان کا شمال ہو یاجنوب ، مشرق ہو یا مغرب، ہرجگہ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہ جہاں اور جس وقت چاہتے ہیں، لوگوں کو قتل کردیتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام سے زیادہ اس بات کا علم کس کو ہوگا کہ ہمارے سیکورٹی اداروں سمیت تمام ریاستی ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں سے زیادہ اس بات کوکون سمجھتاہوگا کہ جس ملک میں نسل پرست اور فرقہ پرست دہشت گرد تنظیمیں آزادانہ کارروائیاں کرتی ہوں اوران کی آڑ میں غیر ملکی خفیہ ادارے اپنے آپریشنز میں مصروف ہوں،وہاں افغانستان سے اُڑ کر آنے والے بلیک ہاک امریکی ہیلی کاپٹروں کو کارروائی کرنے میں کون سی مشکل ہوسکتی ہے۔
پاکستان کے عوام نے یہ بھی دیکھا کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونماہوا اور اس کے بعدحمودالرحمن کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں انسانیت سوز اور بھیانک جرائم کا تذکرہ کیا گیا اور رپورٹ میں بعض لوگوں کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی لیکن یہ رپورٹ بھی کاغذوں کا ایک پلندہ ثابت ہوئی۔ کسی کا نہ تو کوئی احتساب ہوا اور نہ ہی کسی نے ندامت کا اظہار کیا۔ انتہائی افسوسناک امریہ ہے کہ کسی نے تاریخ سے سبق بھی حاصل نہیں کیا۔ آج پورا پاکستان لہولہان ہے۔ اسی باقی ماندہ پاکستان میں دو جرنیلوں نے گیارہ گیارہ سال براہ راست حکومت کی اور باقی عرصے میں فوج کی بالواسطہ حکومت رہی۔ پاکستان میں حقیقی جمہوری حکومت کے قیام کو روکنے کے لئے پاکستان کو عالمی سامراج کے مفادات کی جنگ میں جھونک دیا گیا اور قانون کے بجائے دہشت گردی کو رائج کردیا گیا۔ اب بس ہونی چاہئے، اس ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوچکا ہے۔ لاکھوں ایسے بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں، جن کے قاتل نہیں پکڑے گئے۔ تفتیش اور احتساب کا کوئی نظام باقی نہیں رہا۔ پاکستان کا کوئی ایسا ریاستی ادارہ نہیں ہے جس پر لوگ اعتماد کرسکیں۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ بھی لوگوں کا اعتماد بحال نہیں کرسکی ہے۔
لوگوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے بیرونی جارحیت نہیں روک سکتے، ظاہری بیرونی جارحیت کے بغیر بھی لوگ محفوظ نہیں ہیں۔لوگوں کو خوف اس بات کا ہے کہ سزائیں صرف کمزور لوگوں کو ملتی ہیں۔ پاکستان کا داخلی عدم استحکام اپنی جگہ لیکن اس کے ذمہ داران کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں پاکستان کی خود مختاری کا سوال طاقتور حلقوں کی جانب سے جس شدت کے ساتھ اُٹھایا گیا تھا، اس سے یہ اُمید ہوچلی تھی کہ پاکستان کے بارے میں کوئی سوچنے والے موجود ہیں لیکن اب پتہ چلا ہے کہ اس اسکینڈل میں جو لوگ پھنس رہے تھے، وہ نسبتاً کمزور تھے۔ میموگیٹ اسکینڈل میں جو لوگ پرجوش تھے، وہ اب ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں شاید کچھ بھی نہ بولیں ۔ بس اسی بات نے لوگوں کے خدشات اور وسوسوں میں اضافہ کردیا ہے۔
اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا جائے گا اور اس بات کی تحقیقات شروع ہوجائے گی کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظر عام پر کیوں آئی اور کون لایا اور ہوسکتا ہے کہ کچھ دن کے بعد رپورٹ منظر عام پر لانے والے کو پاکستان کا غدار اور پاکستان کی خود مختاری کا دشمن قرار دے دیا جائے اور اس کی گردن زنی کے لئے سارے وسائل جھونک دیئے جائیں۔ اس بات کا بھی امکان نظر آرہا ہے کہ وہ سارے لوگ بھی ”جذبہ حب الوطنی “ سے مجبور ہوکر میدان میں کود پڑیں، جو ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر خاموش ہیں ۔ بقول شاعر
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
تازہ ترین