محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
انسانی حقوق سے مراد قانونی استحقاق ہے جو تمام لوگوں کواس لیے حاصل ہے کہ وہ انسان ہیں اور انسانی وقار کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ حقوق ان دیگر حقوق کی طرح نہیں ہیں جنہیں حکومتیں’’دے سکتی ‘‘یا ان سے’’واپس لے سکتی‘‘ہیں۔ یہ انسانی حقوق ہر فرد کو حاصل ہیں اور محض اس وجہ سے حاصل ہیں کہ وہ انسان ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں اور پاکستان نے بھی ان معاہدوں پر دستخط کرکے توثیق کر دی ہے کہ وہ ان معاہدوں پر عمل درآمد کرے گا۔
رہائش کے حقوق میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو انسانوں کو ایک مناسب اور محفوظ گھر میں رہائش پذیر ہونے کا موقع فراہم کریں ۔ ایک مناسب درجہ کی رہائش گاہ کا حق رہائشی حقوق کا اہم ترین حصہ ہے۔ تمام افراد کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میں مکمل تحفظ، امن، چین اور پروقار طریقہ سے رہ سکیں۔ اسی لیے ایک مناسب درجے کی رہائش گاہ تک دسترس کا انحصار کسی فرد کے سماجی یا معاشی مرتبہ سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔
انسانی حقوق کے تحت جس میں رہائش کا بنیادی حق شامل ہے ۔کچی بستیوں میں رہنے والےافراد کو جبری بے دخلی سے تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔ اگر مقامی حکومتیں سرکاری زمینوں کا استعمال کرنا چاہیں، جن پر غریب لوگ رہائش پذیر ہیں تو ایسی صورت میں انہیں متاثرہ افراد سے صلاح مشورہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی آباد کاری کی مشکلات کو کم سے کم کیا جا سکے اور کوئی فرد بے گھر نہ ہو جائے۔
اقوام متحدہ نے جامع انسانی حقوق کے رہنما اصولوں کی دستاویز جاری کی ہے جو ترقیاتی کام کے نتیجے میں ہونے والی بے دخلی سے متعلق ہے اور جو ترقیاتی منصوبوں کے نتیجے میں اکثر واقع ہوتی ہیں۔ ان رہنما اصولوں میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ متبادل آبادکاری کے وقت انصاف اور مساوات کا خیال رکھا جائے اوریہ عمومی اطلاق کے قانون کے مطابق ہو۔ تمام افراد، گروہ اور کمیونٹی کو موزوں آبادکاری کا حق حاصل ہے ۔جس میں متبادل زمین کا حق یا مکان کا حق شامل ہے جو محفوظ،قابل دسترس ہو۔
افراد اس کا معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور قابلِ رہائش ہو، متاثرہ افراد، گروہوں یا طبقوں کو انہیں حاصل انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا نہ ہی انہیں ان کے اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے رہائشی حالات کو بتدریج بہتر بنا سکیں۔ اس قانون کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوگا جو ان بستیوں میں موجود ہیں جہاں متبادل آبادکاری ہو رہی ہے اور متاثرہ افراد،گروہوں اور کمیونٹیوں پر بھی ہوگا جو جبری طور پر بے دخل کیے گئے ہوں۔
سپریم کورٹ نے 9 مئی 2019 کو کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین کی بے دخلی کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کو ان متاثرین کو مناسب طریقے سےدوبارہ آباد کرنے کا حکم جاری کیا۔
اکبری بیگم جو اپنے عمر کی سات دہائیاں گزار چکی ہیں ۔بے نظیرکالونی (اورنگی ٹائون )میں 120گزکے مکان میں رہائش پذیر ہیں، ان کی تصویر اور حال صفحے کے مرکزی حصے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا مکان کے ایم سی سے لیز ہے ۔25 سال قبل بیوہ ہوئیں جس کے بعد وہ اپنے تین بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ زندگی کو آگے بڑھارہی تھیں۔ بچےابھی چھوٹے ہی تھے ۔موت کی وجہ سے چولھاہانڈی تو نہیں رکتا نا ۔ بچوں کو کھانا تو چاہیئے تھا اسی لیے انہوں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئےگھر کا ایک حصہ کرایہ پر دے دیا اور خود دروازے پر چھوٹی سی کریانہ کی دکان کھول لی ۔ زندگی اچھی نہیں تو کم ازکم بری بھی نہیں گزررہی تھی ۔مالی وسائل کی کمی کی بدولت بچوں کو نہیں پڑھا سکیں اور دونوں بڑے لڑکے بھی وقت سے پہلے نوکری کرنے لگے۔جو بس گزارہ لائق تھی ۔بیٹی بڑی تھی اس کی جلد شادی کردی ۔
بقول ان کے اس کی شادی ان کے لیے کسی بڑے قرض کے بوجھ سے کم نہ تھی۔ جس کاجلد اتارنا ضروری تھا۔ لیکن قسمت میں جتنے دکھ لکھے ہوتے ہیں وہ سہارنے ہی ہوتے ہیں ۔کوئی 8 سال قبل ان کا بڑا بیٹا دوستوں کے ساتھ حب ڈیم گھومنے گیا لیکن وہ خود واپس نہ آیا بلکہ اس کی لاش آئی ۔روئی پیٹیں ۔برداشت کیا۔ پھر زندگی آگے سرکنے لگی ۔ابھی اس سانحہ کو بمشکل 3سال ہی گزرے ہونگے کہ منجھلا بیٹا جو کہ پولٹری فارم کی گاڑی پر مزدوری کرتا تھا ۔دوران سفر وہ گاڑی میں سامان کے اوپر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک بریک لگنے کے سبب وہ اپنا توازن برقرارنہ رکھ سکا اور سڑک پر آن گرا جس کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوگئی۔
اب بھلا کیا ہو۔ ایک ہی بیٹا جو 17 سال کا ہے اور سب سے چھوٹا اسی کے بھروسے زندگی گزارنا چاہی۔ وہ چھوٹی موٹی نوکری کرہی لیتا تھا کہ کہاں سے اسے نشہ کی لت لگ گئی ۔ پچھلے دوسال سے وہ نشہ کررہا ہے ۔آدمی ایسے میں کیا کرے کہاں سے کلیجہ لائے ۔ کہ 2020کی بارشوں کا آنا گویا حکمرانوں کی متعلقہ اداروں کی غفلت کی ساری پول پٹی کھول گیا اور وہ تباہی کے سازو سامان لے کر پہنچ جاتے ہیں ان جیسے غریبوں اور بے کسوں کی آبادیوں میں۔ جواز یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان کی آبادی نالے پر قائم ہونے کی وجہ سے ایک بڑی رکاوٹ ہے جو پانی کے بہائو کو متاثر کرتی ہے۔اور شہر میں آنے والاے سیلاب کی وجہ یہی گھر ہیں ۔
اور پھر رمضان سے قبل ہی ان کی آبادی اورنگی نالا کی زد میں توڑ دی جاتی ہے ۔اس میں لیز اور بغیر لیز کا کوئی لحاظ نہیں ۔کچے پکے کا کوئی فرق نہیں ۔منظورِ نظر ہے تو صرف اورصرف غریبوں کی بستی ۔پوش علاقوں اور بڑی بڑی عمارتوں سے نظر چرالی گئی اور یوں اکبری بیگم کا گھر توڑ دیا جاتا ہے ۔ان کی آہ وبکاری ،ان کا احتجاج ،ان کی منتیں کون سنتا ہے ۔وہ عورت جو بہت پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے ۔اپنے آپ کو ہرایک حادثہ کے بعد سنبھالنے کا ہنر رکھتی ہے۔کہ زندگی کی گاڑی کو برقرار رکھنا ہے لیکن اب کس کے لیے ۔شوہرکے بعد دو جوان بیٹے کا انتقال اور اب گھر بھی نہیں رہا۔کہاں جائیے کہ کہیں بھی امان نہیں۔جہاں سے انہوں نے زندگی کی عملی شروعات کی تھیں اب دوبارہ وہ اسی سیڑھی پر کھڑی ہیں ۔
آس پاس جتنے گھر ٹوٹے تھے وہ نقل مکانی کرگئے ۔کوئی کرایہ پر چلاگیا ۔کوئی کسی رشتہ دار کے گھر چلاگیا لیکن یہ ابھی تک ملبہ پرایک کپڑے کی چادر تان کر بیٹھی ہیں۔ جہاں ان کا سامان کھلا پڑاہے اور سامان میں ہے ہی کیا۔ کچھ برتن ،ایک چولھا۔ ٹوٹی پھوٹی کرسیاں۔ باتھ روم کی ضرورت کے لیے یہ کسی کے گھر چلی جاتی ہیں ۔بیٹا ضرورت پڑنے پر مسجد ،ہوٹل یا دکان کا رخ کرتا ہے۔کیا اسی کو زندگی کہتے ہیں۔ کیا موجودہ بارشوں کے موسم میں وہ پردہ کی آڑ کافی ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو متبادل رہائش کے لیے کرایہ کی مد میں 90ہزار کا چیک نہیں ملا؟ تو خاتون نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت دکھ سے بتایا کہ وہ رقم تو میں نے اپنا قرضہ اتارنے میں خرچ کردی اور ویسے بھی 90ہزار میں کون کرایہ پر دیتا ہے ۔یہاں تو کرایہ کے ساتھ ہی ایڈوانس بھی تو لیاجاتا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ ان کی کچھ مدد کردیتے ہیں ۔
اب کیا بچ جاتا ہے۔ سوال پھر وہی ہے ۔کیا اسی کو زندگی کہتے ہیں۔کیا ہم غریب لوگ ایسے ہی سسک سسک کر اپنے دن پورے کریں گے ۔اکبری بیگم کہتی ہیں کہ یہ ملبہ میری زندگی کی صورت ہے جو بکھرتا ہی چلا جارہا ہے میں اس سےبھلا کیسے پیچھا چھڑاسکتی ہوں ۔اسی ملبہ کی شکل میں میرے وہ خواب ٹوٹے ہیں جوکبھی میں نے اپنے جوان بیٹوں کے لیے دیکھے تھے لیکن یہاں دادرسی کرنا تو دور کی بات ہے ،کوئی میرا حال پوچھنے نہ آیا ۔پھر رونے کو کندھا ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔ کوئی خدانخواستہ اس بڑھاپے میں ایسی زندگی کا تصور کرسکتا ہے۔ہرگز نہیں ،بالکل نہیں،اسے زندگی نہیں کہتے!
منصف! تیری عدالتوں کی شہرتیں بجا
مگر چمن اجڑ گیا تیرے فیصلوں کے بعد
کراچی میں جبری بے دخلی کا شکار یہ واحد اکبری بیگم نہیں ہیں، جن کی داستان سیما لیاقت نے بیان کی ہے ایسی لاتعداد اکبری بیگم اور اکبر اپنے اجڑے، برباد اور مسمار چمن کے ملبوں پر اپنی بچی کبھی زندگی کی سانسیں تھامے اپنے تخت پر کس مپرسی کی حالت میں بیٹھے ہیں، ان کی نگاہیں ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ انصاف کے ترازو پر مرکوز ہیں، ہاتھوں میں ریاستی اداروں کے اجازت نامے تھامے یہ افراد سوال کرتے ہیں کہ جب برباد ہی کرنا تھا تو آبادکاری کے یہ پرزے کیوں تھمائے تھے؟ ان کی حیثیت نہیں ہے تو تمہاری حیثیت پر بھی تو سوال کھڑا ہو گیا، انصاف اور قانون اندھا ہوتا ہے، یہ تو سنا تھا یہ نہیں جانا تھا کہ یہ ہمیں ہی اندھیر نگری کا باسی بنا دیں گے، ہمارا ہی چمن اجاڑ دیں گے، ارے کوئی تو ہماری بھی سنے، ہماری آواز بنے، یہ درست ہے کہ
گھر نہ در کچھ نہیں رہا محفوظ
ہے غنیمت کہ سر رہا محفوظ
لیکن کوئی بتائے اس سر کو اس زندگی کو لے کر جائیں کہاں؟
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں گنجان ترین ملک ہے۔2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ سے زائد ہے ۔ اس کی آبادی میں4.2 فیصد سالانہ اور شہری آبادی میں 2.7 فیصد سالانہ کےتناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو کہ اس وقت سات کروڑ 53 لاکھ کے برابر ہے۔شہروں میں سالانہ تین لاکھ پچاس ہزار نئے رہائشی مکانات کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ رسمی شعبہ صرف ایک لاکھ پچاس ہزار مکانات سالانہ فراہم کرتا ہے۔ باقی رہائشی ضروریات کچی آبادیاں اور غیررسمی شعبہ پوری کرتا ہےمگر رہائشی ضروریات کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ہائوسنگ پالیسی 2001 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھاکہ کچی آبادیوں کو بے دخل کرنے کے بجائے ان میں سہولیات فراہم کرکے ان کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے گا اور ان کو مالکانہ حقوق فراہم کئے جائیں گے۔
اس پالیسی میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر کسی وجہ سے یا کسی ترقیاتی منصوبے کی زد میں کسی کو کچی آبادی کی زمین درکار ہوگی تو اس کچی آبادی کے مکینوں کو مناسب متبادل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔9 مئی 2009 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے ایک فیصلے میں یہ بھی حکم دیا تھاکہ متاثرین کو مناسب اور بہتر متبادل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ فیصلے کے مندرجات درج ذیل ہیں۔
’’حکومتِ سندھ اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ تمام متاثرین کو مناسب طریقے سے دوبارہ آباد کیا جائے گا اس کے لیےہم (سپریم کورٹ(وزارتِ ریلوے اور حکومتِ سندھ کو خبردار کرتے ہیں کہ ان متاثرین کو جہاں بھی آباد کیا جائے ان کو مناسب طرزِ رہائشی یعنی جدید طرزِ زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ یہ متبادل جگہ کراچی شہر کی کسی اور پس ماندہ آبادی کا منظر پیش کرے۔اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کے ماہرین، انجیئنرنگ اور ماحولیاتی اداروں سے پیشگی مشاورت کی جائے اور ان کی رائے لی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکام یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کریں گے اور منتقلی کا عمل ایک سال کی مدت میں مکمل ہوجائے گا۔‘‘
اربن ریورس سینٹر (یوآرسی) نے حال ہی میں ’’مناسب رہائش کا حق، متبادل آبادکاری کے لیے رہنما اصول‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا ہے، جس کے مرتبین یو آر سی کے ڈائریکٹر محمد یونس اور سینئر منیجر سیما لیاقت ہیں۔کتابچے میں رہائش اور آبادکاری کے حوالے سے بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور حقائق پر مبنی ان کے جوابات بھی دیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق سے کیا مراد ہے ؟ یہ کن لوگوں کو حاصل ہیں ؟
انسانی حقوق سے مراد قانونی استحقاق ہے جو تمام لوگوں کو اس لیے حاصل ہیں کہ وہ انسان ہیں اور انسانی وقار کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ حقوق ان دیگر حقوق کی طرح نہیں ہیں جنہیں حکومتیں’’دے سکتی ‘‘یا ان سے’’واپس لے سکتی‘‘ہیں۔ یہ انسانی حقوق ہر فرد کو حاصل ہیں اور محض اس وجہ سے حاصل ہیں کہ وہ انسان ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں اور پاکستان نے بھی ان معاہدوں پر دستخط کرکے توثیق کر دی ہے کہ ان معاہدوں پر عمل درآمد کرے گا۔
انسانی حقوق کی متعدد قسمیں ہیں تا ہم ان سب کا ایک مشترکہ مقصد ہے جو اس بات کا ضامن ہے کہ افراد باوقار زندگی گزار سکیں۔ شہری حقوق،انصاف پانے کا حق اور سیاسی حقوق مثلاً حق رائے دہی ان حقوق میں شامل ہیں ۔ان کے علاوہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق ہیں۔ مثلاً موزوں رہائش کا حق اور پانی کا حق ۔انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ(1948)ان اہم ترین دستاویزات میں سے ایک ہے جس میں تمام انسانی حقوق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
چونکہ یہ انسانی حقوق عالمی طور پر تسلیم شدہ ہیں اس لیے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی فرد امیر ہے یا غریب ، بوڑھا ہے یا جوان، عورت ہے یا مرد۔ انسان کو انسانی حقوق محض اس بنیاد پر حاصل ہیں کہ وہ انسان ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان حقوق کا لازمی احترام کیا جائے، ان کا تحفظ کیا جائے اور بلا امتیاز ان پر عمل درآمد کیا جائے ۔
تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عملی اقدامات کریں جو ان کی عوام کے لیے ممکنہ طور پر جلد از جلد ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔ حکومتیں انسانی حقوق پر اس وقت تک قدغن نہیں لگا سکتیں جب تک کہ ان کی کوئی بے حد معقول وجہ موجود نہ ہو۔
رہائش کے حقوق سے کیا مراد ہے؟
رہائش کے حقوق میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو انسانوں کو ایک مناسب اور محفوظ گھر میں رہائش پذیر ہونے کا موقع فراہم کریں ۔ ایک مناسب درجہ کی رہائش گاہ کا حق رہائشی حقوق کا اہم ترین حصہ ہے۔ تمام افراد کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میں مکمل تحفظ، امن، چین اور پروقار طریقہ سے رہ سکیں۔ اسی لیے ایک مناسب درجے کی رہائش گاہ تک دسترس کا انحصار کسی فرد کے سماجی یا معاشی مرتبہ سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔
مناسب رہائش گاہ کے حق کی شق بہت سے بین الاقوامی معاہدوں کی دستاویزات میں موجود ہیں جن کی توثیق پاکستان نے کی ہے۔ ان میں سے اہم ترین شق آرٹیکل11(i)ہے جو معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی عہدنامہ International Convenantion Economic Social and Cultural Rights (ICESCR) میں شامل ہے ۔ پاکستان نے اس معاہدے پر 1992ء میں دستخط کیے تھے۔
1991 ء میں اقوام متحدہ کی معاشی،سماجی اور ثقافتی حقوق کی کمیٹی نے ایک عمومی تبصرہ جاری کیا تھا جس میں اس حق کی صراحت کی گئی تھی کہ مناسب رہائش گاہ کے حق میں سات عناصر شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی معاشی،سماجی اور ثقافتی حقوق کی کمیٹی (ICESCR)کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ممبر ممالک پر نظر رکھی جائے کہ وہ اس معاہدوں پر عملدرآمد کریں ۔فریق ریاستوں پر(وہ ممالک جنہوں نے اس معاہدہ پر دستخط کیے ہوں)لازم ہوگا کہ وہ ہر پانچ سال بعد کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کریں جس میں یہ بتا یا گیا ہو کہ انہوں نے ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے کس حد تک اقدامات کئے ہیں۔کمیٹی عمومی تبصرہ بھی جاری کرتی ہے جس میں مناسب رہائش گاہ کے حقوق کی تشریح کی جاتی ہے۔
مقامی حکومتیں کس طرح اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ رہائش کے حقوق کی پاسداری کر رہی ہیں۔
مقامی حکومتوں پر(بشمول شہری،ضلعی حکومتیں،ٹاؤن اور یونین کونسلیں) رہائشی حقوق کے ضمن میں چار اہم فرائض کی پاسداری لازم ہے۔’’غیر امتیازی سلوک ‘‘ کی پاسداری کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو ’’قانون‘‘ اور ’’عمل درآمد‘‘کے معاملے میں مساوی مواقع فراہم کرنا۔ مقامی حکومتوں کے قوانین اور پالیسیاں ایسی ہوں کہ وہ افراد کے درمیان نسل، رنگ، جنس، عمر، زبان، مذہب، سیاسی، سماجی یا دیگر نظریات یا سماجی شناخت مثلاً پیدائش، جسمانی یا ذہنی معذوری،صحت کی حالت (بشمول HIV/AIDS) جنسی رویہ اور شہری،سیاسی، سماجی یا دیگر حالات کی بنیاد پر غیر منصفانہ امتیاز روانہ رکھیں۔
جبری بے دخلی سے کیا مراد ہے؟
جبری بے دخلی کا مطلب ہے کہ کسی فرد کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے گھر یا زمین سے اس کی خواہش کے خلاف بے دخل کرنا جبکہ اسے مناسب تحفظ بھی حاصل نہ ہو۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ ’’جبری بے دخلی کا طریقہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ خاص طور پر یہ مناسب رہائش گاہ کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔‘‘مقامی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے افسران اور بلدیہ کے دیگر کارکن جبری بیدخلی کا ارتکاب نہ کریں۔ اگر پاکستان کے کسی قانون کے تحت بے دخلی کی اجازت ہو تب بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پاکستان کے آئین یا بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے مطابق ہے یا پاکستان کے دیگر قانونی فرائض کے مطابق ہے۔
کیا کچی بستیوں میں رہنے والی آبادی کو بے دخل کیا جا سکتا ہے؟
دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ایسے شہری مراکز موجود ہیں جن کے ساتھ کچی بستیاں جڑی ہوئی ہیں جہاں کے مکینوں کو زمین کے مالکان کو اس زمین کے قانونی حقوق حاصل نہیں ہیں۔اگرچہ ان بستیوں میں آباد لوگ اس علاقے کے غریب ترین لوگ ہوتے ہیں لیکن معاشی ترقی میں ان کا خاصا کردار ہے۔ مثلا یہ لوگ یا تو وقتی محنت فراہم کرتے ہیں یاپھر چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں۔
تاہم چونکہ حکومت ان کم آمدنی والے افراد کو مناسب قیمت پر رہنے کے لیے زمین یا مکان فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے یہ طبقات اکثر وبیشتر کچی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہے ہوتے ہیں۔انسانی حقوق کے تحت جس میں رہائش کا بنیادی حق شامل ہے ۔کچی بستیوں میں رہنے والےافراد کو جبری بے دخلی سے تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔
اگر مقامی حکومتیں سرکاری زمینوں کا استعمال کرنا چاہیں جن پر غریب لوگ رہائش پذیر ہیں تو ایسی صورت میں انہیں متاثرہ افراد سے صلاح مشورہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی بعض آباد کاری کی مشکلات کو کم سے کم کیا جا سکے اور کوئی فرد بے گھر نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالاتحفظات کا فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
مناسب ترین متبادل آباد کاری سے کیا مراد ہے؟
ایسی بہت سی دستاویزات موجود ہیں جن میں مناسب ترین متبادل آبادکاری کے اصولوں کی صراحت کی گئی ہے۔ان میں سے ایک اقوام متحدہ کے جامع انسانی حقوق کے رہنما اصولوں کی دستاویز ہےجو ترقیاتی کام کے نتیجے میں ہونے والی بے دخلی سے متعلق ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے نتیجے میں اکثر واقع ہوتی ہیں۔ ان رہنما اصولوں میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ متبادل آبادکاری کے وقت انصاف اور مساوات کا خیال رکھا جائے اوریہ عمومی اطلاق کے قانون کے مطابق ہو۔
تمام افراد،گروہ اور کمیونٹی کو موزوںآبادکاری کا حق حاصل ہے ۔جس میں متبادل زمین کا حق یا مکان کا حق شامل ہے جو محفوظ،قابل دسترس ہو۔افراد اس کا معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوںاور قابلِ رہائش ہو۔ متبادل آبادکاری کے وقت چند اہم امورکو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ آبادکاری پر عمل کرنے سے پہلے ایک مکمل پالیسی واضح کی جائے اور یہ پالیسی رہنما اصولوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق انسانی سے مطابقت رکھتی ہو۔
متبادل آباد کاری سے متعلق اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون کے مطابق متبادل آبادکاری کے تمام مصارف ادا کریں۔ متاثرہ افراد،گروہوں یا طبقوں کو انہیں حاصل انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا نہ ہی انہیں ان کے اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے رہائشی حالات کو بتدریج بہتر بنا سکیں ۔اس قانون کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوگا جو ان بستیوں میں موجود ہیں جہاں متبادل آبادکاری ہو رہی ہے اور متاثرہ افراد، گروہوں اور کمیونٹیوں پر بھی ہوگا جو جبری طور پر بے دخل کیے گئے ہوں۔
ضروری ہے کہ متاثرہ افراد، گروہوں اور کمیونٹیوں کو اس بات کی مکمل معلومات فراہم کی جائےکہ جن علاقوں یا عمارت کو خالی کروایا جارہاہے انہیں کس طرح استعمال کیا جائے گا اور اس سے کن افراد،گروہوں یا کمیونٹیوں کو فائدہ پہنچے گا ۔اس بات پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے کہ مقامی لوگوں،نسلی اقلیتوں، بے زمین افراد،خواتین اور بچوں کو اس عمل میں نمائندگی حاصل ہو۔
متبادل آبادکاری کے مکمل عمل کو متاثرہ افراد،گروہوں اور کمیونٹی کے مکمل مشورہ اور تعاون سے عمل میں لایا جائے ۔ خاص طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت متاثرہ افراد، گروہ یا کمیونٹی کی جانب سے پیش کیے جانے والے متبادل منصوبوں کو پیش نظر رکھے۔ متبادل آباد کاری کے عمل کے دوران مقامی سرکاری افسروں اور غیرجانب دار مبصرین کا موجود رہنا ضروری ہے جن کی شناخت کردی گئی ہو اور جو اس بات کی ضمانت ہوکہ انہیں طاقت، تشدد یا انتقامی کاروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
کیا دوسرے ممالک میں جبری بے دخل افراد کی آبادکاری کی مثالیں موجود ہیں؟
جنوبی افریقا اور بھارت کی عدالتیں اس سلسلہ میں اہم کردار انجام دے رہی ہیں ۔ان ممالک کے آئین میں جو انسانی حقوق شامل ہیں ان کے تحت مذکورہ ممالک کی عدالتوں نے بلدیات کو کچی آبادیوں میں جبری بے دخلی سے باز رکھنے کے کئی اصول مقرر کیے ہیں ۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے مطابق ’’صرف اس حقیقت کی بناء پر کہ ناجائز تجاوزات کنندگان نے عدالت میں درخواست دی ہے ان کے مقدمات کو خارج کرنے کے لیے ناکافی ہے‘‘۔
’’اگر کسی علاقے میں غریب لوگ خاصے عرصے سے رہائش پذیر رہے ہوں تو حکومت کو چاہیئے کہ وہ شہر کے غریب افراد کی آبادکاری کے لیے منصوبے بنائے جس کے تحت انہیں زمین اور وسائل فراہم کئے جائیں‘‘۔(احمدآباد میونسپل کارپوریشن بخلاف نواب خاں گلاب خان)
جنوبی افریقا کی آئینی عدالت کے مطابق ’’عدالت کو چاہئے کہ وہ رہائش پذیر افراد کو بے دخل کرنے کی اجازت نہ دے تاوقتیکہ اسے یقین نہ ہوجائے کہ مناسب متبادل رہائش کا انتظام موجود ہے ۔خواہ یہ انتظام عارضی مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ تاآنکہ مستقل ہائوسنگ پروگرام کے تحت رہائش فراہم کرنے کے لیے اقدامات عمل میں لائے جائیں‘‘۔(رپورٹ الزبتھ میونسپلٹی بخلاف متعددقبضہ کنندگان)
کچی آبادیوں کوکون سی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں؟
مقامی حکومتیں اپنے علاقے کے رہائش کنند گان کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں اہم کردار انجام دیتی ہیں ان سہولتوں میں پانی ، صحت و صفائی، بجلی، کوڑے کی صفائی،گندےپانی کی نکاسی،صاف و شفاف پانی کی فراہمی اور ہنگامی نوعیت کی خدمات شامل ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ’’مناسب رہائش کے حق‘‘کے تحت یہ ساری سہولتیں فراہم کریں۔
ان خدمات کی فراہمی کا مطلب عوام کو دیگر حقوق کی فراہمی بھی ہے۔مثلا ًپانی کا حق،زندہ رہنے کا حق اور صحت کا حق۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے رتلم کیس میں زندہ رہنے کے حق کے تحت مقامی بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے حق کے تحت علاقے کےرہائش کنندگان کو کافی مقدار میں پانی،صفائی اور گندے پانی کی نکاسی کی سہولیات فراہم کرے۔
فلپائن سپریم کورٹ نے انرجی ریگولیٹری بورڈ بخلاف منیلا الیکٹرک کمیٹی کے مقدمہ میں یہ فیصلہ دیاتھاکہ’’بجلی حاصل کرنے کا حق،معاشی حق ہے جس کا تعلق زندگی کی بنیادی ضروریات سے ہے‘‘۔عدالت نے یہ حکم صادر کیا کہ الیکٹرک کمپنی اپنے تمام صارفین کووہ تمام اضافی رقوم واپس کرے جسے وہ فروری 1994 سے جمع کر رہی تھی۔
کیا غیر رسمی اور کچی آبادیوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے؟
ہاں! افراد کے درمیان ان کی رہائش اور املاک کی بنیادپر امتیاز نہیں برتا جاسکتا ۔اقوام متحدہ کی معاشی،سماجی اور ثقافتی حقوق کی کمیٹی کے کمنٹ نمبر5 کے مطابق جوپانی کے حق سے متعلق ہیں۔’’محروم شہری بستیوں کو جن میں غیر رسمی، انسانی بستیاں(کچی بستیاں)اور بے گھر افراد شامل ہیں۔ پانی کی سہولتیں مناسب طور پر فراہم کی جائیں ۔کسی بھی شخص کو اس کی رہائش یا مالکانہ حقوق کی بنیاد پر پانی حاصل کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تاہم غیر رسمی بستیوں کو یا کچی آبادیوں کو ہمیشہ ان خدمات کا فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔اس کے لیے نئے نئے طریقے دریافت کرنا ضروری ہیں۔خواہ اس وقت تک ان بستیوں کا حتمی درجہ متعین نہ ہواہو۔ مثلا کینیا میں کسیمو سٹی کونسل(kisumun city council)اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ پانی کے عوامی مرکز قائم کیے جائیں تاکہ جھونپڑپٹیوں میں رہنے والے افراد کو سستااور صاف پانی حاصل ہو سکے۔
کچی آبادیوں کے متعلق ترمیمی قوانین
پنجاب کچی آبادی بل 2012کے تحت کچی آبادیوں کو لیز دینے کی آخری تاریخ دسمبر 2006سے بڑھاکر دسمبر2011کردی گئی ہے ۔جس کا مطلب ہے دسمبر 2011 تک قائم ہونے والی تمام کچی آبادیوں کو لیز دی جائے گی ۔حکومت پنجاب نے یہ اقدام کچی آبادیوں کی بے دخلی روکنے اور ان میں ترقیاتی کام تیرکرنے کی وجہ سے اٹھایا تھا۔
سندھ کچی آبادی (ترمیمی)ایکٹ 2009 سندھ ایکٹ نمبرIIIمجوزہ 2016 کے تحت سندھ کچی آبادی ایکٹ 1987میں ترمیم کی گئی ہے ۔ اس ترمیم کے مطابق کچی آبادیوں کو لیز دینے کی آخری تاریخ 23مارچ 1985سے بڑھا کر 30 جون 1997 کردی گئی ہے ۔اس ترمیم کا مقصدیہی تھاکہ 30جون 1997 تک قائم ہونے والی تمام کچی آبادیوں کو لیز دی جاسکے اور ان کی بے دخلی کے عمل کو روکا جاسکے۔
’’اجڑا دیار‘‘کے عنوان سے شاہد احمد دہلوی کی دلی پر لکھے گئے مضامین کتابی صورت میں شائع ہوئے تھے، کیا خبر تھی کہ آج کراچی پر ہزاروں بےکسوں کا نوحہ بھی اسی عنوان کے تحت لکھنا پڑے گا، آباد کے سابق چیئرمین محسن شیخانی نے کہا تھا کہ سرکاری اداروں ان کے کاغذوں کی حرمت برقرار رکھو، یہ لوگ سرکاری اجازت نامے کے ساتھ اپنے گھروں میں ہیں، اگر یہ اجازت نامے کوئی وقعت نہیں رکھتے تو پھر کیا بچے گا، کس پر اعتبار کیا جائے گا، پھر سپریم کورٹ یا نیب ہی رہایش کی حتمی سند جاری کرے، ایساہی کر لیا جائے، کوئی تو آخری ہو! جسکے بعد یہ اعتبار ہو کہ اب کوئی برباد کرنے نہیں آئے گا۔
قومی ہائوسنگ پالیسی 2001اور کچی آبادیاں
سال 2001 میں حکومت نے بے دخلی کے متعلق ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا۔ اس صدارتی حکم کوقومی ہائوسنگ پالیسی قرار دیا گیا ہے جس کے درج ذیل نکات ہیں ۔
1985سے قبل آباد تمام کچی آبادیوں کی لیز اور ترقیاتی کاموں کا عمل موجودہ پالیسی کے تحت جاری رہے گا۔
متعلقہ ادارے ان کچی آبادیوں کی ایک مکمل لسٹ تیار کریں گے جوکہ 1985 کے بعد ان کی زمینوں پر قائم ہوئی ہیں۔
1985سے قبل قائم اگر کسی کچی آبادی کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو پہلے ان کی شاندہی کی جائے گی۔
صوبائی گورنر اور متعلقہ وزارتیں یہ کام28 فروری2001 تک مکمل کریں گے۔
صوبائی گورنر متعلقہ وزارتوں کی مدد سے28 فروری2001 تک شہروں کے اندر ایسی زمین کی نشاندہی کریں گے جہاں متاثرین یا منتقل کی جانے والی آبادیوں کو بسایا جائے گا۔
متاثرہ کچی آبادیوں کی منتقلی کے لیے جون2001 تک ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے گا۔
جب تک(جون2001)یہ جامع منصوبہ تیار نہیں ہوگا کسی بھی کچی آبادی کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔
ادارہ ترقیات اسلام آباد اپریل2001 کے آخر تک ایک ماڈل شہری رہائشی منصو بے کی منظوری دے گا۔
1985سے قبل اور کچی آبادیوں کی ترقی کےلیے ڈائریکٹر جنرل سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے پیش کردہ منصوبے کی طرز پر ایک منصوبہ تیار کیا جائے گا۔
وزارت ریلوےاور وزراتِ ہاؤسنگ ورکس اس سلسلے میں ان امور پر مل کر کام کریں گی جن میں کچی آبادیوں کی منتقلی، لیز اور ترقیاتی کام شامل ہیں۔
وزارت ریلوے1985 سے قبل آباد تمام کچی آبادیوں کو 1985 کی پالیسی کے تحت این۔ او۔ سی جاری کرے گا جبکہ باقی آبادیوں کو شق 3 اور4 کے تحت منتقل کیا جائے گا۔
مستقبل میں صو بائی اور وفاقی حکومت کے زیر انتظام ترقیاتی اداروں کے تحت اعلان کردہ رہائشی اسکیموں میں کم آمدنی والے افراد کے لیے الگ سے پلاٹ رکھیں گے جو کہ ان کو سستے داموں فراہم کئے جائیں گے۔
صو بائی گورنر اس پالیسی پر عمل درآمد کرانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کے نمائندوں پر مبنی کمیٹیاں قائم کریں گے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے ماحولیات دیہی ترقی اور لوکل گورنمنٹ گورنروں کےساتھ بطور رابطہ کار کے فرائض انجام دے گا۔
کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق سپریم کو رٹ کا 9 مئی 2019 کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے نعمت اللہ خان کیس میں 9 مئی 2019 کو کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین کی بے دخلی کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کو ان متاثرین کو مناسب طریقے سےدوبارہ آباد کرنے کا حکم جاری کیا ۔اس حکم نامہ کا اردو متن درج ذیل ہے:
ہم (سپریم کورٹ )نے سکریٹری ریلوے کو سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین بحالی کے متعلق سنا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاں تک ریلوے کے منصوبہ سے متعلق کام ہے وہ تمام 15دن کے اندر مکمل کرلیے جائیںگے۔اِ س کے بعد سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین اس پر چلائے۔ اس لیے سندھ حکومت یہ یقین دہانی کرائے کہ وہ سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کو مزید ایک ماہ کے اندر فعال کرے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ، میئر کراچی، چیف سکریٹری سندھ، کمشنر کراچی اور ریلوے انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائیں۔ سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین اس دی ہوئی مدت میں بغیر کسی ناکامی کے بحال ہوجائیں۔ اور جس طرح کی مدد اور تعاون کی ضرورت وفاقی حکومت اور پلاننگ ڈویژن سے درکار ہے وہ فراہم کی جائے تاکہ ٹرین ا س مدت کے دوران بحال ہوسکے۔
سکریٹری ریلوے نے کورٹ کو بتایا کہ تجاوزات کے خلا ف کاروائی شروع کی جاچکی ہے اور انہوں نے یقین دلایا کہ ریلوے کی زمین سے تمام تجاوزات کو ہٹایا جائے گا لیکن ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ ان تجاوزات میں ہزاروں کی تعداد میں رہائشی مکانات ہیں۔ جن میں لوگ رہائش پذیر ہیں اور اپنے روزگار سے متعلق کام میں مصروف ہیں۔ یہ سب کچھ ریلوے حکام کی مدد سے ہواہے۔
ریلوے تجاوزات ہٹانے کے کام کو یقینی بنایا جائے مگر اس آپریشن میں جو لوگ متاثر یا بے دخل ہونگے ان کی مناسب آباد کاری کی جائے گی اور اس سلسلہ میں محکمہ ریلوے وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور میئر کراچی کی مدد لے سکتا ہے ۔سکریٹری ریلوے نے بتایا کہ تمام متاثرین کی نشان دہی کردی گئی ہے اور ان کی لسٹ بھی تیار کرلی گئی ہے۔ اور اس امور پر حکومت سندھ سے بات چیت بھی ہوچکی ہے۔
حکومتِ سندھ اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ تمام متاثرین کو مناسب طریقے سے دوبارہ آباد کیا جائے گااس کے لئے ہم(سپریم کورٹ) وزارتِ ریلوے اور حکومتِ سندھ کو خبردار کرتے ہیں کہ ان متاثرین کو جہاں بھی آباد کیا جائے ان کو مناسب طرزِ رہائشی یعنی جدید طرزِ زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ یہ متبادل جگہ کراچی شہر کی کسی اور پس ماندہ آبادی کا منظر پیش کرے۔
اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کے ماہرین ،انجیئنرنگ اور ماحولیاتی اداروں سے پیشگی مشاورت کی جائے اور ان کی رائے لی جائے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حکام یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کریں گے اور منتقلی کا عمل ایک سال کی مدت میں مکمل ہوجائے گا۔ میئر کراچی،چیف سکریٹری، کمشنر کراچی اور سکریٹری ریلوے اس کام کی ترقیاتی رپورٹ اگلی پیشی پر کورٹ میں جمع کرائیں گے‘‘۔