1957میں ہدایت کار سبطین فضلی نے فلم کرافٹ میں آغا حشر کاشمیری کے مشہور تھیٹر ’’آنکھ کا نشہ‘‘ کو پہلی بار جب سنیما کے اسکرین پرپیش کیا، تواس نئے تجربے کو اخبارات ورسائل نے خصوصی کوریج دی۔ فلم’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں سب سے زیادہ مسرت نذیر اور سدھیر کی کردار نگاری کو پسند کیا گیا۔ فلم یکے والی اور ماہی منڈا کی الہٹر مٹیار کے کردار ادا کرنے والی مسرت نذیر نے اس فلم میں اپنی سنجیدہ اداکاری سے خاص طور پر خواتین کو بے حد متاثر کیا، اپنے حُسن وجمال کے ساتھ اس فلم میں ان کا خالص بیگماتی انداز نے فلم بینوں کےدل موہ لیے تھے، ینگ ٹو اولڈ کردار میں وہ ہر منظر میں دل کش نظر آئیں۔
اداکار سدھیر جنہیں لوگ جنگجو ہیرو کے نام سے یاد کرتے تھے، اس فلم میں بیرسٹر کے کردار میں اس قدر کام یاب رہے کہ انہوں نے اپنے باغی کے جنگجوایکشن ہیرو کو کسی فلم کے کسی منظر میں بھی عوام کے ذہنوں میں نہیں آنے دیا۔ ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں مسرت نذیر،سدھیر، صبیحہ خانم اور اسلم پرویز نے اپنے اصل ناموں کے ساتھ فلمی کردار کیے، سدھیر نے بیرسٹر شاہ زمان کے یادگارکردار کیا۔ فلم کی مکمل کاسٹ میں شاہینہ، نذیردلجیت مرزا،نیلو، جانی بابو،جی این بٹ،منشی ظہیر، عشرت نگاہ،ممتاز، شادو، فیضی، چوہان، اسلم جان، بے بی شبابہ کے نام شامل تھے۔
اداکار سدھیر کی ذاتی فلم تھی، جس کے ہدایت کار سبطین فضلی تھے، فلم کا منظر نامہ بھی ان ہی کا تحریر کردہ تھا۔ فلم کے مکالموں میں منشی ظہیراور آغا حشر کاشمیری کانام شامل تھے۔ فوٹو گرافر رضامیر،نسیم حسین، تدوین کار علی ، صدابندی افضل حسین، پروسینگ رحمان محمودڈانس ڈائریکٹر الف عزیز، نگار خانہ ایورنیو اسٹوڈیو لاہور تھے۔ بنیادی طور پر فلم کی کہانی بیرسٹر شاہ زمان( سدھیر)، مسرت(مسرت نذیر) شمشاد بائی (شاہینہ) صبیحہ (صبیحہ خانم) کے گرد گھومتی ہے۔ جب سدھیر یہ فلم بنارہے تھے، اس زمانے میں مسرت نذیر اور صبیحہ خانم دونوں ٹاپ کلاس ہیرونزتھیں اور ان دونوں میں اکثر مقابلہ بازی بھی رہتی تھی۔
مسرت نذیر نے پہلی بار اس فلم میں ینگ ٹو اولڈ کردار کیاتھا، جب سدھیر اس کردار کے لیے ان کو کاسٹ کرنے گئے، تو انہوں نے پہلے انکار کردیا کہ ان کی مدمقابل ہیروئن صبیحہ کی سرپرست ایک طرح کاماں کا کردار وہ کسی صورت میں نہیں کریں گی۔ سدھیر نے انہیں اسکرپٹ دیا اور اس کردار کی اہمیت بتائی جو کہ کہانی کی ہیروئن کاتھا، اس پر غور کرنے کے بعد مسرت نذیر مان گئیں اور واقعی ایسی ہی ہوا، جب انہوں نے اس کردار کو ادا کیا تو ان کا فنی قد اپنی ہم عصر ہیروئن کے مقابلے اونچا ہوگیا، فلم میں سدھیر کے کردار میں بہت وسعت تھی،بیرسٹر سے مفرور قاتل اور پھر سیٹھ افریقہ والا جو ہیروں کا تاجر ہے، ان تمام تبدیلیوں میں وہ اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کرتے نظر آئے۔
انہوں نے اپنی کردار نگاری کا اس فلم میں وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا، جس نے انہیں وراسٹائل اداکار منوایا، لیکن بدنصیبی سے انہیں بعد میں ہدایت کار اس طرح کے کرداروں کے بہ جائے مخصوص ایکشن روایتی کرداروں میں کاسٹ کرتے رہے۔ شاہینہ کا کردار اس کی آزاد طبیعت اور فطرت کے عین مطابق تھا۔ ایک طوائف کے کردار میں وہ اچھی لگیں ۔ صبیحہ خانم جو کہ شاہینہ اور سدھیر کی بیٹی ہے، جس کی پرورش مسرت نذیر کرتی ہے ، اس کے میک اپ میں برکت علی نے بہت عمدہ کام کیا۔ صبیحہ نے ایک کالج گرل کے موڈرن کردار میں فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بعض مناظر میں کچھ ایسی ادائیں بھی دکھائیں، جو سنجیدہ فلم بینوں کی تنقید کا نشانہ بنیں۔ اسلم پرویز نے روایتی ہیرو کے کردار کو حسب معمول ادا کیا، دیگر اداکاروں میں نیلو،جی این بٹ، نذر،جانی بابو، دلجیت مرزا، فیضی،عشرت نگاہ اپنے اپنے مختصر کرداروں میں مناسب رہے۔
کہانی کا خلاصہ یہ تھا کہ بیرسٹر شاہ زمان(سدھیر) ملک کی نامور شخصیت تھے۔ جو اپنی خُوب صورت، بیوی مسرت(مسرت نزیر) کے ساتھ ایک خوش گوار زندگی بسر کررہے تھے، مسرت ایک وفا شعار مشرقی بیوی ہے، جو اپنے خاوند کی ہر ممکنہ ضرورت کا خیال رکھتی ہے اور اپنی فرض شناسی اور وفا کی وجہ سے اپنے خاوند کے دل کی ملکہ ہے۔ ان دونوں کی محبت سے ایک بچی بے بی شبانہ جنم لیتی ہے۔ ایک روز بیرسٹر صاحب کے پاس شہر کی مشہور اور خوب صورت طوائف شمشاد (شاہینہ) کسی کیس کے سلسلے میں مشورہ کرنے آتی ہے، اس کے سازندے نذر اور دلجیت مرزا بھی اس کے ہمراہ ہوتے ہیں۔
بیرسٹر اس کی خوب صورت بلوری آنکھوں اور دل کش سراپا کا اسیر ہوکر اس کے کوٹھے پرجانا شروع کردیتا ہے۔ جب مسرت کو اپنے شوہر کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ شیخو بابا جو ان کا خاندانی ملازم ہوتا ہے ،اس کے ساتھ شمشاد بائی کے کوٹھے پرجاکر اپنے شوہر کی واپسی کے لیے منت کرتی ہے، لیکن بیرسٹر کا ہر گزرنے والا دن شمشاد کی جھوٹی اور فریبی محبت میں مبتلا ہوتاگیا اور اس کی آنکھوں میں شمشاد کی جوانی کا فریب اندھی محبت بن کر سماتا رہا، دوسری جانب بیرسٹر کی بیٹی بے بی شبانہ باپ کی محبت سے محروم اور والدہ کے دکھوں کو نہ دیکھ سکی اور شدید بیمار ہوکر مرگئی، ادھر شمشاد نے بیرسٹر کی بچی کو جنم دیا، اب اسے یقین ہوگیا شاہ زمان اسے کبھی نہیں چھوڑسکتا،مسرت کی آہوں نے ایک روز اثر دکھایا، شمشاد کی اصل فطرت سامنے آنے لگی، اس نے اپنے کارندوں نذر،دلجیت مرزا اور فیضی کے کہنے پر شاہ زمان سے بے جا فرمائشیں کرنا شروع کردیں، شمشاد نے بیرسٹر کی جس بچی کو جنم دیا ، اس کی کلائی پر بیرسٹر کی کلائی کی طرح ایک سیاہ داغ ہوتا ہے، جوبیرسٹر کی مرحوم بچی کی کلائی پربھی تھا۔
شمشاد نے ایک روز بیرسٹر کو بلیک میل کرنے کے لیے ایک لاکھ روپیہ طلب کیا، وہ انکار کردیتا ہے تو شمشاد اسے دھمکی دیتی ہے کہ تمہاری بیٹی کو جوان کرکے میں اسی کوٹھے کی زینت بنا دوں گی۔ اس پر شاہ زمان مشتعل ہوکر شمشاد کو قتل کردیتا ہے اور اپنی بیٹی صبیحہ کو لے کر اپنی بیوی مسرت کے پاس لے جاتا ہے کہ تم اس کی پرورش کرنا، اورخود مفرور ہوجاتا ہے۔ ریلوے لائن پر ایک لاش کو دیکھتا ہے، جس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوجاتا ہے، شاہ زمان اپنے کپڑے اور گھڑی لاش کو پہنا کر خود افریقہ فرار ہوجاتا ہے۔ لاش کو شاہ زمان کی لاش سمجھ کر پولیس اسپتال لاتی ہے۔ مسرت کو شناخت کرنے کےلیے بلایا جاتا ہے ، مگر وہ دیکھ کر انجان بن جاتی ہے، وہ جان جاتی ہے کہ یہ شاہ زمان کی لاش نہیں، مگر پولیس کی مفروری کی وجہ سے خاموش رہتی ہے۔
شیخو بابا(جانی بابو) اس غم کی گھڑی میں مسرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ بیرسٹر کے رشتے دار دھوکا دہی سے ساری جائیداد اور مکان پر قبضہ کرکے مسرت کو بے دخل کردیتے ہیں۔ وہ ننھی صبیحہ کو لےکر شیخو بابا کی کٹیا میں زندگی بسرکرتی ہے۔ شب وروز محنت کرکے وہ صبیحہ کی پرورش کرتی ہے۔ صبیحہ جوان ہوجاتی ہے، مسرت بوڑھی ہوجاتی ہے، کالج میں صبیحہ اپنے کلاس فیلو اسلم(اسلم پرویز) سے محبت کرنے لگتی ہے۔شاہ زمان افریقا میں ہیروں کی تجارت سے بہت مالدار بن کر وطن واپس آکراپنی بیوی اور بچی کو بہت تلاش کرتا ہے، مگر ان کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ایک روز صبیحہ اپنی کالج کی سہیلیوں کے ہمراہ اپنی کالج میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے کی ٹکٹیں فروخت کرنے کے لیے شاہ زمان کے پاس آتی ہے، صبیحہ کا حسن وجمال دیکھ کر وہ اس کا دیوانہ ہوجاتاہے۔
شاہ زمان جو ایک بار پھر شراب خانوں اور بازار حسن میں اپنی دولت لٹانے کے لیے جاتا ہے، جہاں اسے شمشاد کے پرانے سازندے نذر، دلجیت مرزا اور فیضی پہچان لیتے ہیں، وہ اس کے قریب آکر اس کی دولت سے مزے کرتے ہیں۔ وہ ان سازندوں سے صبیحہ کو اغوا کرنے کے لیے کہتا ہے۔صبیحہ جس سے اس کا محبوب کسی بات پر ناراض ہوجاتا ہے، اب وہ اپنی بیمار ماں مسرت کے علاج کے لیے گھر سے نکلتی ہے، مگر اسے کہیں ملازمت نہیں ملتی، لوگ اس کے حسن کی قیمت لگاتے ہیں، ایک روز صبیحہ کو نذر اور دلجیت مرزا کسی بہانے سےشاہ زمان جواب افریقا والا مشہور ہوتا ہے، اس کے پاس لاتے ہیں، صبیحہ اس سے روپیہ لےکر جاتی ہے اور اپنی ماں کا علاج کروانا چاہتی ہے، مسرت کوجب صبیحہ پیسے دیتی ہے تو وہ اسےخوب ملامت کرتی ہے کہ کہیں اپنی جوانی کا سودا تو نہیں کردیا۔
شیخو بابا وہ روپیہ افریقا والا کو واپس کرنے جاتا ہے، تو راستے میں اسے بدمعاش لوٹ لیتے ہیں۔ افریقا والا غنڈوں کے ذریعے صبیحہ کو اغوا کرواتا ہے، جب وہ اسے اپنی ہوس کا شکار بنانے لگتا ہے، تو اس کی ہتھیلی پر سیاہ دھبہ دیکھ کر رُک جاتا ہے اور بیٹی کہہ کر اسے گلے لگالیتا ہے۔ اسلم اور شیخو بابا بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ شاہ زمان اپنی بیٹی کے ساتھ اپنی بیوی مسرت کے پاس آتا ہے، جو چند گھڑیوں کی مہمان ہوتی ہے۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ کی امانت آج میں آپ کے حوالے کرتی ہوں اور مرجاتی ہے۔ مسرت کی موت سے شاہ زمان بھی دلبرداشتہ ہوجاتا ہے اور اسی عالم میں وہ بھی اس کے ساتھ مرجاتا ہے۔ صبیحہ اور اسلم کی شادی ہوجاتی ہے۔
ماسٹر عنایت حسین نے دھنیں تو بہت معیاری بنائیں، مگر وہ عوامی مقبولیت کے اس معیار کو بہ چھو پائیں، جو گمنام اور قاتل کو حاصل رہا۔ اس فلم میں کل9نغمات شامل تھے۔ ان نغمات کے بول قتیل شفائی ۔آغا حشر۔ طفیل ہوشیار پوری۔ اور سیف الدین سیف نے لکھے تھے۔ یہ یادگار کلاسیک فلم جون 1957 کو کراچی کے پلازہ سنیما پر ریلیز ہوئی تھی، جہاں تین ماہ تک مسلسل اس کی کام یاب نمائش رہی، سائیڈ سنیماؤں کے ہفتے ملا کر اس18ہفتے کا بزنس کیا۔ یہ نیلم پکچرز نے کراچی میں ریلیز کی تھی۔