• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹوکیو اولمپکس کے دوران پاکستان میں اولمپک کے بارے میں کوئی بات نہیں کررہا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ایتھلیٹس اولمپکس میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ سارے پاکستان کو کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی، مسرت بخشنے والے ویٹ لفٹرطلحہ طالب کے والد ہی ان کی امید بندھاتے رہے، ان کی کوچنگ کرتے رہے اور اس آدھے گھنٹے میں وہ اور ان کے گھر والے پورے پاکستان کی طرح ایک معجزے کی دعائیں مانگتے رہے۔حالانکہ طلحۃ میڈل نہ جیت سکے لیکن ان کی پانچویں پوزیشن نے شائقین کو خوش کردیا اور الیکٹرانک ،میڈیا، اور سوشل میڈیا پر اس کی پذیرائی کررہے ہیں۔

دوسری جانب ملک کا واحد مقبول کھیل کرکٹ مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلی عمران خان کے وژن کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا آئین دو سال پہلے منظر عام پر آیا تھا لیکن اس آئین پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ کلب کرکٹ اور سٹی کرکٹ سمیت کلبوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے تحفظات ابھی دور نہیں ہوئے ہیں۔پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی کے سامنے میں نے جب بھی کسی مسلے کی نشاندھی کی وہ فوری طور پر جواب دیتے ہیںلیکن پھر پی سی بی کے حکام کی سست روی کے سامنے جب وہ کیس جاتا ہے تو خاموشی ہوجاتی ہے۔

عمران خان کا وژن یہ نہیں تھا کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کردیا جائے وہ آسٹریلوی نظام کو لانے کی باتیں اس لئے کرتے ہیں تاکہ گراس روٹ سسٹم مضبوط ہو۔بدقسمتی سے گراس روٹ پر وہ لوگ کام کررہے ہیں جنہیں شاید اس سسٹم کی حساسیت کا علم نہیں ہے۔ مجھے احسان مانی کی صلاحیت پر شک نہیں ہے لیکن یہ سسٹم سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے جب تک اس سسٹم کو عمران خان کے اصل وژن کے مطابق عمل نہیں کیا جائے گا اس سسٹم سے نتائج حاصل کرنا مشکل ہیں۔ ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے نئے نظام کے عمل درآمد ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے شائقین پریشان ہیں۔

ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقاریونس کی کارکردگی کے بارے میں عام لوگ بھی کھل کر باتیں کرتے ہیں۔ دوسال بعد بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں جب کہ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ سر پر ہے تجربات جاری ہیں۔ احسان مانی کو چاہیے کہ وہ ٹیم انتظامیہ سے جوب طلبی ضرور کریں۔ فتوحات کے بعد تو کافی ساری بیان بازی سننے کو ملتی ہے مگر شکست کئی عوامل بدل دیتی ہے اور ٹیم کے ذمہ داران کیمرے اور مائیک سے گریز ہی کرتے ہیں۔ 

مگر پچھلی سیریز کے اختتام اور حالیہ سیریز کے آغاز کے بیچ جو چھوٹا سا وقفہ میسر آیا ہے، اس دوران مصباح الحق کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا۔ اس بیان میں کچھ بھی ایسا نہیں کہ جو خبر کہلا سکے مگر بہرطور ایک اعترافی بیان کے تناظر میں خاصی حد تک حقیقت پسندانہ دکھائی دیتا ہے کہ ٹیم ابھی تک انہی مسائل کا سامنا کر رہی ہے جو اسے دو سال پہلے درپیش تھے۔لگ ایسا رہا ہے کہ دو سال بعد بھی ٹیم کا کمبی نیشن بن نہیں پایا،تجربات ضرور ہورہے ہیں لیکن کارکردگی میں مستقل مزاجی نہیں آرہی ۔

مسائل مڈل آرڈر سے متعلق ہیں۔ محمد حفیظ کی فارم ایک الجھن بنی ہوئی ہے اور پانچویں چھٹے بلے باز کا انتخاب ہو کے نہیں دے رہا۔ ہر سیریز میں ایک آدھ تجربہ دیکھنے کو ملتا ہے مگر کوئی بھی ابھی تک اپنی جگہ پکی نہیں کر پایا۔محمد رضوان کی اوپننگ شراکت داری کی اوسط اگرچہ کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اب سابقہ اوپنر فخر زمان اس بیٹنگ آرڈر میں 'بے گھر ہو چکے ہیں۔پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے مطابق گوجرانوالہ کے طلحہ ’صرف دو کلو گرام سے میڈل حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔‘

مستقل ملازمت نہ باقاعدہ ٹریننگ، لیکن اس کے باوجود اگر کسی کھلاڑی کا اولمپکس مقابلوں میں شرکت کا خواب حقیقت بن جائے تو یہ اس کھلاڑی کے لیے کتنی خوشی کی بات ہو گی، کرکٹ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر معاملات درست نہ کئے گئے تو ملکی کرکٹ مزید نیچے چلی جائے گی اور وزیر اعظم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ احسان مانی کو چاہیے کہ وہ فرنٹ فٹ پر آئیں اور کرکٹ پر چھائے ہوئی ناامیدی کو دور کریں۔ بابر اعظم، مصباح الحق، اور وقار یونس سے جواب طلبی کی جائے دراصل ملک میں طلحہ طالب کی طرح کرکٹ میں بھی باصلاحیت لوگ موجود ہیں لیکن مسئلہ موقع ملنے کا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین