بر صغیر پاک و ہند کے خطے، سندھ ، پنجاب، بلوچستان، یا خیبر پختون خوا میں محبت کی چند ایسی عشقیہ داستانوں نے جنم لیا جو ہمیشہ کے لیے اَمر ہوگئیں۔ ہیر رانجھا،شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں، نوری جام تماچی، مومل رانو، سسّی پنوں اور سوہنی مہنیوال کے چرچے آج بھی زبان زد عام ہیں۔ سندھ دھرتی کے عظیم صوفی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنے شعری مجموعوں میں ان میں سے بعض داستانوں کا تذکرہ بیان کیا ہے جس کی وجہ ان کہانیوں کے کردار پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی مقبول ہیں۔
ان حقیقی داستانوں پر مبنی کئی فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔جن علاقوں میں ان عشاق کی قبریں ہیں ، پریم کہانیوں اورشاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام سے استفادہ کرکے ملک اور بیرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد ہر سال انتہائی تلاش و بسیار کے بعد ان میں دیئے گئے مرکزی کرداروں کی قبروں پر پہنچتی ہے اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور مغفرت کی دعائیں کرتی ہے۔
ایسی ہی ایک پریم کہانی سوہنی مہینوال کی ہے، جوسندھ اور پنجاب کی چوپالوں میں صدیوں سے بیان کی جاتی ہے اور لوگ اسے انتہائی ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ بعض تذکرہ نویسوں کے مطابق مہینوال ، جس کا اصل نام عزت بیگ تھا، اس کا تعلق بخارا سے تھا ۔حسن و جمال کا پیکر سوہنی ،گجرات کے ایک کمہار عبداللہ کی بیٹی تھی جو مٹی کےدیدہ زیب برتن بناکر فروخت کرتا تھا، جس سے اس کے خاندان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ سوہنی بھی ظروف سازی میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا کرتی تھی۔ وہ اس قدرحسین تھی کہ اُس کے حُسن کا چرچا دور درازکے علاقوں تک پھیلا ہواتھا۔
بخارا کے ایک مالدار ترین کاروباری شخصیت کا بیٹا ،عزت بیگ تجارت کی غرض سے گجرات آیا اور کاروبارکی غرض سے وہیں مقیم ہوگیا۔ ایک روز عزت بیگ برتن خریدنے کی غرض سے عبداللہ کمہارکےگھر پہنچاتو اُس کی نظروہاں موجود سوہنی اور سوہنی کی نظریں عزت بیگ پر پڑیں تو دونوں پر سکتہ طاری ہوگیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔اس کے بعد سے عزت بیگ ہر روز برتن خریدنے کے بہانے سوہنی کےگھر جاتا اور نہ صرف ڈھیر سارے برتن وہاں سے خرید کرلے جاتا بلکہ مزیدبرتنوں کا آرڈر بھی دے آتا۔ رفتہ رفتہ عزت بیگ اپنے کاروبار سے لاتعلق ہوتا گیا اور اس کی دنیا صرف سوہنی کی محبت تک محدود ہوگئی۔
کاروبار تباہ ہونے کے بعد عزت بیگ بالکل قلاش ہوگیا، بخارا واپس جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک روز وہ سوہنی کے باپ عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اُسے اپنے پاس ملازم رکھ لے ۔عبداللہ کمہار کو بھی دیگر کاموں کے لیے ایک مدد گار کی ضرورت تھی، اس لیے اس نے ، اُسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا ۔ عزت بیگ کو مویشی چرانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ملازمت ملنے کے بعد، عزت بیگ نےسوہنی کے گھر کے قریب ہی رہائش اختیار کرلی۔ کیوں کہ گجرات کی مقامی بولی میں چرواہے کو ’’مہینوال‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا ، اس لیے عزت بیگ بھی ’’مہنیوال‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا اور لوگ اس کا اصل نام بھولتے گئے۔
عبداللہ کمہار کی ملازمت ملنے کے بعداس کی سوہنی سے قربت بڑھتی گئی اور ایک وقت ایسا آیاکہ سوہنی اور مہنیوال کے عشق و محبت کی داستان نہ صرف سوہنی کے باپ بلکہ دور دراز کے علاقوںتک جا پہنچی۔ بد نامی کے خوف سے عبداللہ نے فوری طور سے سوہنی کا رشتہ قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے طے کیا اور تھوڑے ہی دنوں میں اس کی شادی کردی گئی۔ سوہنی رخصت ہوکر اپنے شوہر کے ساتھ دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے شوہرکے گھر چلی گئی جب کہ مہینوال اسی کنارے پر رہ گیا۔ سوہنی نے اپنی محبت کی تسکین اور محبوب سے ملاقات کے لیے ایک منفرد طریقہ ایجادکیا۔ ان کے ملاپ کے راستے میں دریائے چناب کی سرکش موجیں حائل تھیں۔ کیوں کہ وہ کمہارکی بیٹی تھی ، اس لیے مٹی کے ظروف بنانے میں مہارت رکھتی تھی۔
اس نے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے پکی مٹی سے ایک گھڑا تیار کیا۔ اس کے بعدوہ روزانہ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب مہنیوال سے ملنے گھڑے کی مدد سے تیر کر دریاکے پار پہنچ جاتی اور وہ دونوں صبح کی سپیدی پھیلنے تک ایک دوسرے کی محبت میں کھوئے رہتے۔ یہ بات چھپی نہ رہ سکی اور ایک مرتبہ سوہنی کی نند کوپتہ چل گیا کہ سوہنی روزانہ رات کو اپنے محبوب سے ملنے دریا کے دوسرے کنارے پر جاتی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سوہنی جو خود تیرنا نہیں جانتی ، مٹی کے مضبوط گھڑے کی مدد سے دریا پار کرتی ہے۔
اس نے اپنی بھاوج کے خلاف ایک خوف ناک سازش تیار کی۔ وہ خود بھی کمہار خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس لیے اس نے انتہائی مہارت کے ساتھ کچی مٹی کا گھڑااس انداز میں بنایاکہ اس میں اور سوہنی کے بنائے ہوئے گھڑے میں سرمو فرق نظر نہیں آتا تھا۔ ایک روزاس نےسوہنی کے بنائےہوئے پختہ گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیاجس سے سوہنی لاعلم رہی ۔وہ اپنے محبوب کی محبت سے بے قرار ہوکر کچی مٹی کا گھڑا اٹھا کراس پر بیٹھ کر دریا میں اتر گئی۔ وہ اس بات سے قطعی بے خبرتھی کہ اس گھڑے کی صورت میں اپنی موت کا سامان لے کر جارہی ہے۔
پانی میں اترنے کے بعد کچی مٹی سےبنے گھڑے کی مٹی گھلنا شروع ہوئی اوردریا کے عین وسط میں پہنچ کرگھڑا بالکل پگھل گیا جس کے ساتھ ہی سوہنی بھی ڈوبنے لگی۔موت کے خوف سے سوہنی نے بے اختیارمہینوال کو پکارنا شروع کیا۔ مہینوال جو دریا کے دوسرے کنارے پر سوہنی کے آنے کا انتظار کررہا تھا، اس نے اس کی چیخیں سن کراسے بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن اسے بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اس لیے سوہنی کو بچانے کی کوشش میں وہ خودبھی ڈوب گیا۔اس طرح دونوں سچے عاشقوں کی پاکیزہ محبت تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ پنجاب کے سینے پر بہنے والےپانچوں دریا بشمول دریائے چناب دریائے سندھ ہی میں آکرملتے ہیں۔ اُس زمانے میں دریائے سندھ جو آج ہالا کے قریب سے گزرتا ہے اُس وقت شہداد پور کے قریب سے گزرتا تھا لہٰذا سوہنی مہنیوال کی نعشیں طویل سفر طے کرکے تیرتی ہوئی گجرات سے شہداد پور تک پہنچ گئیں۔ سوہنی کے باپ اور دیگر رشتہ دار جو ان دونوں کو تلاش کررہے تھے، جب شہداد پور میں ان کی لاش ملنے کا علم ہوا تو وہ وہاں پہنچے۔ بعد ازاں شناخت کے بعد ان دونوںکی تدفین شہداد پور ہی میں دو مختلف مقامات پر کی گئی۔
آج سوہنی کا مزار’’ مائی سوہنی‘‘ کے قبرستان میں جبکہ مہنیوال کا مزار شہداد پور کے عین وسط گنجان آبادی میں واقع ہے ۔ 1979 میں جب محمد ایوب بھامن اسسٹنٹ کمشنروایس ڈی ایم شہداد پور تعینات تھے تو انہوں نے شہریوں کے بے حد اصرار پر پہلی مرتبہ شہداد پور میں ’’مائی سوہنی ‘‘کے نام سے تین روزہ میلے کا انعقاد کرایا تھالیکن یہ سوہنی مہینوال کی محبت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پہلا اور آخری میلہ ثابت ہوا۔