پاکستان میں پچھلے دس پندرہ برس سے چارٹر آف اکانومی کے دعوے اور نعرے ہر دور کی حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ٹول اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب حکومت یا اپوزیشن سیاسی محاذ آرائی کے فرنٹ پر بیک فٹ پر جا رہی ہو۔ عملی طور پر اس طرف کبھی پیش قدمی نہیں ہوئی جس وقت اس سلوگن کا ذکر یا آغاز ہم نے اپنے کالموں اور جنگ اکنامک سیشن کی نشستوں میں مختلف ماہرین کی آرا کے توسط سے کیا تو ہر سیاسی جماعت نے اس نعرے کو اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی نے اس حوالے سے عملی طور پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی انہیں داد دی جا سکےاور اِس وجہ سے نقصان یہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ پارلیمنٹ نے بھی اس حوالے سے کچھ نہ کیا جس کے بعد عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔ ہماری سیاسی جماعتیں ساری سیاست میں اس سلوگن کو محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کے تمام اقتصادی، سماجی حتیٰ کہ سیاسی مسائل کا حل اسی چارٹر آف اکانومی کے تصور اور مستقل معاہدے میں ہے جو صدر پاکستان، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے دستخطوں سے مکمل ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ 1991میں بھی بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنے ملک میں ہندو گروتھ ریٹ کا تصور ختم کر کے پاکستان کی 1990-91کی اقتصادی اصلاحات کے قانون پرعمل درآمد کر کے کیا تھا۔ چند روز قبل پیاف (صنعت کاروں اور تاجروں کی تنظیم) کے چیئرمین نعمان کبیر نے سابق وفاقی وزیر خزانہ اور تجارت پروفیسر ڈاکٹر حفیظ پاشا کو پاکستان کے موجودہ اقتصادی حالات، چیلنجز اور ان کے حل کے بارے میں منعقدہ خصوصی نشست میں بطور مہمان مقرر مدعو کیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انکشاف کیا کہ وہ چارٹر آف اکانومی پر اپنی کتاب مکمل کر چکے ہیں جس کی افتتاحی تقریب اگلے دو ہفتوں میں اسلام آباد اور پھر لاہور میں منعقد ہو گی۔ ڈاکٹر پاشا ملکی اقصادی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور 1993کے اقتصادی حالات کے پروگرام میں وہ خاصا موثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کتاب میں چارٹر آف اکانومی کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ مختلف صنعتی و تجارتی شعبوں اور ٹیکسوں کے نظام پر بات کی گئی ہے۔ ہمیں یہ سن کر خوشی ہوئی کہ چلیں چارٹر آف اکانومی پر سیاسی جماعتوں میں کوئی معاہدہ نہ ہو سکا البتہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اپنی کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس موقع پر نعمان کبیر جو اس سال یکم اکتوبر کو لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر کا عہدہ سنبھال رہے ہیں، نے ڈاکٹر حفیظ پاشا کو پیشکش کی کہ پیاف لاہور میں آپ کی کتاب کی تقریب کی میزبانی کرے گا جس کے اخراجات وہ برداشت کریں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس بہانے ملک میں چارٹر آف اکانومی کی بات تو عام ہو گی۔ اس حوالے سے اب بھی موقع ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں کم ازکم اس حوالے سے مل بیٹھ کر کوئی چارٹر تیار کر لیں ورنہ جس طرح کی سیاست اب ہمارے ملک میں ہو رہی ہے جس میں رواداری، شائستگی اور عزت و احترام سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے اس سے عوام میں سیاست اور سیاسی جماعتوں سے بے زاری کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ خدارا ہماری سیاسی جماعتیں ملکی معیشت پر محض بیان بازی سے کام نہ چلائیں اور صرف ٹی وی یا جلسوں میں آ کر ایک دوسرے کو نیچا نہ دکھائیں بلکہ عملی طور پر صرف عوامی مفادات کے تحفظ کیلئے ایسی اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کریں جو وقت اور حالات کی اہم ترین ضرورت ہے۔