• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرضوں کی ادائیگی کی صورتحال دیکھتے ہوئے میں نے یہ بات اپنے گزشتہ کئی کالموں میں واضح کردی تھی کہ پرانے قرضوں کی وقت پر ادائیگی کیلئے حکومت کو آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینا پڑیں گے اور بالآخر پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے مشن کے چیف جیفری فرینک کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کو 5.3 ارب ڈالر کے 3% مارک اپ پر نئے قرضے لینے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس نئے قرضے کو پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں اضافے، بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی حکومتی سبسڈی کے3 سال میں مکمل خاتمے، سرکلر ڈیٹ اور SRO کلچرل کے خاتمے، دستاویزی معیشت کیلئے ٹیکس ریفارمز، خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور نجکاری، سخت مالیاتی پالیسی جس کے تحت بینکوں کی شرح مارک اپ میں اضافہ ہوگا سے مشروط کیا ہے جن پر اتفاق رائے کیلئے کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہیں کی رضامندی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر ان کے اپنے تحفظات ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ تمام صوبائی حکومتیں قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے درست فیصلہ کریں گی۔ میرے ٹی وی کے کچھ پروگراموں میں اینکرز نے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے الیکشن میں کئے گئے کشکول توڑنے کے وعدوں کے برخلاف قرار دیا ہے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں اس اہم معاشی فیصلے کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کروں کہ نومنتخب حکومت کیلئے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا کیوں ضروری تھا؟
پرانے قرضوں کی وقت پر ادائیگی کیلئے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوکر صرف 5/ارب ڈالر تک رہ گئے تھے جس سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آرہی تھی اور روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں 100 روپے سے تجاوز کرگیا تھا۔ پاکستان کو اپنے امپورٹ بلوں کی ادائیگی کیلئے کم از کم 2 سے 3 مہینے کے زرمبادلہ کے ذخائر ہونا ضروری تھے جو کم ہوکر ایک سے ڈیڑھ ماہ کیلئے رہ گئے تھے اور ان تمام چیزوں کو روکنے کیلئے پاکستان کی کسی بھی حکومت کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے نئے قرضے لے کر گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کو پورا کرکے اپنی کرنسی کو مستحکم کرے۔ پاکستان کو آئندہ سال آئی ایم ایف کے 3/ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ پاکستان 1988ء میں آئی ایم ایف کا ممبر بنا تھا جس کے بعد سے پاکستان نے 11 مرتبہ قرضے حاصل کئے جس میں 2008ء میں 7.6 بلین ڈالر کا لیا گیا اسٹینڈ بائی قرضہ بھی شامل ہے۔ ان میں سے 6 قرضے شہید بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں لئے گئے جس میں اسٹینڈ بائی (SB)، اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام (SAP)اور اس کی توسیع، غربت میں کمی اور گروتھ کیلئے (PRGF) حاصل کئے گئے قرضے شامل تھے جبکہ میاں نواز شریف کے دور میں آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی اور مشرف کے دور میں PRGF معیشت کی بحالی کیلئے قرضے لئے گئے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ کرنے کے باعث آئی ایم ایف نے ہمیں اوسطاً مجموعی قرضوں کی صرف 44%رقم ادا کی۔ صرف شوکت عزیز کے دور میں حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرکے1.3 بلین ڈالر کا مکمل قرضہ حاصل کیا۔ یہاں میں ایک دلچسپ بات قارئین کو بتاتا چلوں کہ آئی ایم ایف سے لئے جانیوالے 11 قرضوں میں سے 9 قرضے جمہوری حکومتوں نے اور صرف 2 قرضے فوجی حکومتوں نے حاصل کئے۔ آئی ایم ایف سے لئے گئے ان قرضوں کی شرائط میں حکومتی اخراجات میں کمی، ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ، افراط زر اور غربت میں کمی جیسی شرائط شامل تھیں لیکن25 سالوں کے بعد بھی حکومتیں ان شرائط کو پورا نہ کرسکیں ۔
آئی ایم ایف کے قرضوں کے مثبت اور منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق سخت مالیاتی پالیسی اپنانے سے بینکوں کے قرضوں کے لینڈنگ ریٹ میں اضافہ ہوتا ہے جس سے صنعت کاری اور سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے اور اس سے ہماری گروتھ (GDP) میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ نئے قرضوں سے ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور ریونیو کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور سودکی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مطلوبہ رقم دستیاب نہیں ہوتی۔میں اپنے گزشتہ کالموں میں متعدد بار یہ لکھ چکا ہوں کہ ہمیں غربت میں کمی لانے کیلئے تیز گروتھ ماڈل کو اپنانا ہوگا جس میں بینکوں کے کم شرح سود سے ملک میں سرمایہ کاری سے صنعتی ترقی کی جائے جس سے نئی ملازمتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں اور ہماری گروتھ بڑھے ۔ معاشی ترقی اور گروتھ میں اضافے سے حکومت کو قومی خزانے میں اضافی ریونیو بھی حاصل ہو گا۔ میں ہمیشہ کم گروتھ سے اضافی ریونیو حاصل کرنے کی حکومتی پالیسی کا مخالف رہا ہوں۔
آئی ایم ایف کے پاکستان کو نئے قرضے دینے سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے جس کا اندازہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس میں تیزی سے اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے نئے قرضے حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے ”کلین چٹ“ لینا ضروری تھی جو نئے قرضوں کی منظوری سے مل گئی ہے۔وزیر خزانہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف کے نئے قرضے لینے سے ملک کے مجموعی قرضوں میں اضافہ نہیں ہوگا لیکن نئے قرضے نہ لینے کی صورت میں ملک ڈیفالٹ کرسکتا تھا جس کے سنگین معاشی نتائج ہوتے۔ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ پاکستان آئندہ 6 مہینوں میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے 3سال قبل معطل کئے گئے پروگرام کو دوبارہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے تحت پاکستان کو جنوری 2014ء تک 400 سے 500 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جائے گی۔ میرا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ نئے قرضوں کے حصول کے علاوہ جلد از جلد 3G لائسنس کی نیلامی کرے جس سے تقریباً ایک ارب ڈالر، پی ٹی سی ایل کے ذمہ پاکستان کے800 ملین ڈالر کے بقایا جات کی وصولی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی پاکستان کو اخراجات کی مد میں ایک ارب ڈالر کے واجبات کی ادائیگی کو جلد از جلد حاصل کرے تاکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نئے یورو بانڈز کے اجراء کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ماضی میں2 دفعہ جاری کئے گئے یورو بانڈز زیادہ منافع کی وجہ سے نہایت کامیاب رہے تھے اور حکومت پاکستان باقاعدگی سے ان کے مارک اپ کی ادائیگی کررہی ہے جن سے بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ میں ان بانڈز کی قیمت مستحکم ہے جس کی وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ نئے یورو بانڈز کا اجراء بھی کامیاب رہے گا۔میرے خیال سے یہ بات آپ سب کے علم میں ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کا ہر باشندہ تقریباً 86 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے اور ہر جنم لینے والا بچہ جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وہ مقروض ہوتا ہے۔ زندہ قوموں کیلئے یہ بات باعث شرم ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی مقروض بنادیا ہے۔ میری دعا ہے کہ گڈ گورننس اور مستقبل میں معاشی ترقی سے ہم قرضوں کی اس لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرکے قرضوں کا یہ طوق اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں۔ (آمین)
تازہ ترین