• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے نوجوان رہنما مرتضی وہاب کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا ہے ۔ وہ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے قانون اور حکومت سندھ کے ترجمان بھی رہیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرتضی وہاب کو اتنی اہم ذمہ داری دے کر پیپلز پارٹی کراچی میں اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکے گی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتضی وہاب باصلاحیت ، ذہین ، مستعد اور محنتی نوجوان ہیں ۔ انہیں بات کرنے کا بھی سلیقہ ہے اور وہ ہر فورم پر پارٹی کی بہتر نمائندگی کرتے ہیں لیکن ان میں تجربےکی کمی ہے۔ انہوںنے اپنی ہر ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا ہے اور اپنے آپ کو تسلیم کرایا ہے لیکن کراچی کے سیاسی حالات بہت پیچیدہ ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سوچ سمجھ کر ہی انہیں یہ ذمہ داری دی ہو گی ۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ مرتضی وہاب کامیاب ہوں اور پیپلز پارٹی اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکے تو ایک طرف تو مرتضی وہاب کو معقول وقت دینا ہو گا اور مالیاتی وسائل بھی مہیا کرنے ہوں گے ۔ دوسری طرف مرتضی وہاب کو پیپلز پارٹی کی مکمل سیاسی حمایت اور کارکنوں کی ورک فورس بھی درکار ہو گی ۔ کراچی کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لئے پیپلز پارٹی کو فوری طور پر ایک واضح پلان بھی دینا ہو گا ۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئےنہ صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان بلکہ عدالتوں کا بھی سندھ حکومت پر دبائو ہے ۔ مرتضی وہاب کا تقرر کرکے پیپلز پارٹی نے سندھ کے مزید بلدیاتی اداروں میں سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کے تقرر کی راہ ہموار کر لی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی خواہش مند نہیں لیکن صورت حال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے اور پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات کرانا پڑ سکتے ہیں ۔ اسلئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مرتضی وہاب یا مقرر ہونے والے مزید سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کے پاس کتنا وقت ہے ۔ اگر سندھ میں پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کرا دے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی ۔ اس سے آئینی اور جمہوری تقاضے پورے ہوں گے اور بلدیاتی ادارے بہتر انداز میں بھی کام کر سکیں گے ۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا ۔ پیپلز پارٹی مرتضی وہاب جیسے لوگوں کو ہی بلدیاتی انتخابات میں منتخب کراکے آگے لے آئے ۔ ابھی تو کراچی کی دو نمائندہ بڑی سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف مرتضی وہاب کی تقرری پر اعتراض کر رہی ہیں ۔ بہرحال کسی کی صلاحیت اور کارکردگی کو پرکھنے کے لئے اسے وقت دینا ضروری ہے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کے سیاسی ایڈمنسٹریٹر کو حکومت سندھ مالیاتی وسائل فراہم کرے ۔ کراچی کے بلدیاتی ادارے کے تباہ ہونے کے کئی اسباب ہیں لیکن مالیاتی وسائل کی کمی بھی ایک بڑا سبب ہے ۔ بلدیہ عظمی کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں کو ملنے والی ساری گرانٹس ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر انتظامی امور پر خرچ ہو جاتی ہیں ۔ ہنگامی اور معمول کے کاموں اور ترقیاتی کاموں کے لئےرقم نہیں ہوتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت مرتضی وہاب کو مالیاتی وسائل فراہم نہیں کرے گی تو وہ مطلوبہ تنائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ تیسری اہم بات یہ کہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کو اپنی پارٹی کی مکمل سیاسی حمایت ہونی چاہئے تاکہ وہ شہر کی بہتری کے لئے پارٹی کی تنظیم کو استعمال کر سکے اور پارٹی کی تنظیم ان کے کاموں کی ’’ اونر شپ ‘‘ لیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے ۔ مرتضی وہاب کی بطور ایڈمنسٹریٹر تقرری سے پہلے میڈیا میں یہ خبریں چلتی رہیں کہ اس تقرری پر پارٹی کے کچھ لوگوں کو اعتراض ہے ۔ ان خبروں کی پارٹی کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں ہوئی ۔ مرتضی وہاب کی والدہ محترمہ فوزیہ وہاب مرحومہ پارٹی کی سرگرم کارکن تھیں اور ان کی پارٹی کارکنوں سے بہت زیادہ شناسائی تھی ۔ مرتضی وہاب کارکنوں کے ساتھ ایسی جڑت پیدا نہیں کر سکے اور وہ صرف پارٹی قیادت سے تعلق کو ہی فوکس کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور عہدیداران کو چاہئے کہ اگر کوئی ایسی خلیج ہے تو اس کو ختم ہونا چاہئے ۔ صوبائی وزیر بلدیات کا بھی کے ایم سی کے معاملات میں بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔ پارٹی قیادت اس معاملے کو بھی مدنظر رکھے تاکہ ایک ہی پارٹی کے وزیر بلدیات اور ایڈمنسٹریٹر ہم آہنگی سے کام کرتے رہیں ۔

کراچی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک نیا پلان اور نیا وژن( جس میں ماسٹر پلان ) دینا ہو گا ۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے میئرز اور ناظمین نے اگرچہ کئی بڑے کام بھی کئے لیکن مسائل کے حل کیلئےان دونوں سیاسی جماعتوں کاماڈل نہیں چلے گا ۔ کراچی کے مخصوص علاقوں کو بار بار ترقی دی گئی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی گئی ۔ ان مخصوص علاقوں کے پانی ، سیوریج اور صفائی کے اصل مسائل پھر بھی حل نہ ہو سکے ۔ کراچی کے ماسٹر پلان کے خلاف کام کرکے ان ترقی یافتہ علاقوں کو بھی برباد کیا گیا اور انہیں گنجان آباد گندے علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔ ان دونوں جماعتوں نے کچی آبادیوں پر بالکل توجہ نہیں دی ، جہاں کراچی کی نصف سے زیادہ آبادی رہتی ہے ۔ یہ آبادیاں مسائل کا گڑھ بن چکی ہیں ۔ کراچی کے مسائل چند شاہراہوں کی بار بار تعمیر سے حل نہیں ہونگے ۔ اس کی آبادیاں انسانی المیوں کو جنم دینے والی آماجگاہیں بن چکی ہیں ۔ اس کے مسائل کے حل کیلئے مختلف انداز میں سوچنا ہو گا ۔ کراچی کی آبادی بہت بڑ ھ گئی ہےجبکہ سیاسی ڈائنا مکس ( Dynamics ) بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ کراچی کی ٹرانسفارمیشن نہ ہوئی تو یہ شہر سنبھالنا مشکل ہو جائیگا ۔ پیپلز پارٹی نے اس شہر کا سیاسی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا ہے تو لوگوں کی امیدیں اور توقعات بھی بڑھ گئی ہیں ۔ میں مرتضی وہاب کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں ۔

تازہ ترین