• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی سالوں پہلے پیپلز پارٹی نے "مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں" کا نعرہ لگایا تھا، کافی متاثر کن تھاسمجھا گیا کہ سندھ کی بدحالی پہ پیپلز پارٹی سخت نالاں ہے اب وہ سندھ کی خوش حالی چاہتی ہے، اسی خوش فہمی کے تحت پچھلے پندرہ سالوں سے پیپلزپارٹی سندھ میں بلا شرکت غیرحکمرانی کر رہی ہے،کراچی کو چونکہ ہر جماعت اہمیت نہیں دیتی اسی لئے سمجھا گیا کہ کراچی کو چھوڑیں بقیہ سندھ میں حالات زیادہ بہتر ہو گئے ہوں گے،اسی خیال کے تحت صوبوں میں ترقی کی رفتار کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے کراچی تا خیبر پختون خواہ بائی روڈ سفر کیا گیا۔ یقینی طور پر حیرتوں پہاڑ ٹوٹے۔ کراچی کراس کرتے ہی سندھ بھر میں "لاک ڈاون "نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی سوائے اسکولوں کی بندش کے،انٹر سٹی بس سروسز معمول کے مطابق رواں دواں تھیں،کوئی ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلہ کا لحاظ نہ تھا،کیونکہ کورونا تو صرف کراچی میں گھر کیے ہوئے ہے،چلیں موضوع سے ہٹ گئے اصل گفتگو ترقی کی ہونی ہے،خیر کراچی سے حیدرآباد تک موٹر وے M9 موجود لیکن پھر M8, M7, M6, کا کوئی وجود نہ تھا،سکھر کراس کرکے M5سے ملاقات ہوئی M9 اور M5 میں فرق واضح طور پر نظر آیا،یعنی ادارہ ایک ہی وسائل کا اختیار بھی ایک ہی لیکن معیار میں اتنا فرق؟ فرق ہے صرف اور صرف صوبائی حکومتوں کا، پیپلزپارٹی اپنے ہی علاقے سے مخلص نہیں۔ خیر آگے چلے M5 سے M3 اور پھر M2، کیا زبردست کوالٹی کی سڑک بنی ہے کارپٹنگ(استرکاری ) ایسی زبردست کہ ذرہ برابر بھی جھٹکا نہ محسوس ہو۔ پھر وہاں سے M1 سے ہوتے ہوئے صوابی سے چکدرہ موٹر وے M13 تک کا سفر کیا چکدرہ سے سوات موٹروے M16 شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے M15 ہزارہ موٹروے جو حسن ابدال سے شروع ہوکر تھاکوٹ تک جاتی ہے بیچ میں ایبٹ آباد ، بالا کوٹ اور مانسہرہ آتے ہیں یہ خوبصورت ترین موٹر وے کہلاتی ہے،سوال یہ ہے کہ اگر ہم پنجاب میں بنے والی موٹر ویز کو اگنور بھی کردیں لیکن M16 اور M15کو کیسے اگنور کرسکتے ہیں ۔ جب پہاڑی علاقوں میں اتنی شاندار موٹر ویز بن سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سندھ جیسے میدانی علاقے میں موٹر ویز M6, M7 اور M8 تعمیر نہ ہوسکیں۔ یقینا ان کا نعرہ اصل میں یہی ہے "مرسوں مرسوں سندھ میں موٹر ویز نہ بننے دوں"۔اصل میں یہی ہےخیر چکدرہ سے آگے لوئر دیر اور اپر دیر جانا ہوا جو کہ پہلے FATA کہلاتا تھا 2018میں KP میں شامل ہوگیا وہاں سڑکیں بلکہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے ایک شہر کا صرف ایک داخلی راستہ نہیں بلکہ کئی راستے ہیں جسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ سڑکوں کی حالت سندھ کی نیشنل ہائی ویز سے کافی بہتر اور ترقیاتی کام مسلسل جاریon custom paid, NCP، آئی ٹی سیکڑ بہت مضبوط ہے۔ شرنگل اپر دیر میں شرنگل یونیورسٹی دیکھی وہاں کا انتظام دیکھ کر بہت مسرت ہوئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اتنی معاشی ترقی کے باوجود امن وامان کی صورتحال زبردست ہے، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے چترال میں جرائم کی شرح صفر ہے۔ پشاور نہ جا سکے اس لیے اسے اس میں شامل نہ سمجھا جائے۔ یہ ان علاقوں کا ذکر ہے جو علاقہ غیر کہلاتے تھے اور ابھی 2018 میں خیبر پختون خواہ میں شامل ہوئے ہیں۔

تازہ ترین