• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست ہماری آزادی کا مہینہ ہے، وہ آزادی جس کے لئے ہمارے لاکھوں بزرگوں نے جان و مال اور گھر بار کی قربانی دی ۔ ان کے لئے پاکستان ایک اَن دیکھی جنّت تھا۔ لیکن اب تقریباًپون صدی گزرنے کے بعد جب پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں کہ ہم نے آزادی کے جس تصّور کے تحت آگ اور خون کے دریا پار کئے تھے۔ اس کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں ملتا۔پاکستان نہ تو معاشی ، آئینی اور جمہوری لحاظ سے ایک مستحکم ملک بن سکا اور نہ ہی پاکستان کی مختلف اکائیوں کے لوگ ایک منظّم قوم کی شکل اختیار کر سکے حالانکہ بھارت کی نسبت اپنے کم مگر جیو پولیٹکل لحاظ سے انتہائی اہم محّلِ وقوع زرخیز زمینوں ، زیرِ زمین چھپے ہوئے معدنی خزانوں ، انتہائی ذہین اور محنتی عوام اور سب سے بڑھ کر ایک نئے وطن کے حصول کی لگن اور جوش، ولولے کی وجہ سے پاکستان کے بھارت کی نسبت ترقی کرنے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔ مگر افسوس اقتدار کے حریص لیڈروں ، ڈکٹیٹروں، عالمی سامراج اور ان کے ایجنٹوں نے اپنے مفادات کی خاطر نہ ہمیں ایک منظّم قوم بننے دیا نہ مستحکم ملک ۔ بلکہ ستم یہ ہوا کہ پاکستان دنیا کی تاریخ کا وہ واحد بد قسمت ملک بن گیا جو اپنے قیام کے صرف 23سال بعد ہی دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا جبکہ نہ صرف اس کے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت بلکہ اس سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش بھی اب اس سے کہیں آگے نکل گیاہے۔ پاکستان اس وقت خطّے کا معاشی ، سیاسی ، جمہوری اور داخلی استحکام کے حوالے سے پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستان کی پہچان معاشی طور پر تباہ حال ، مذہبی انتہا پسندی اور بنیادی جمہوری حقوق سے محروم مفلوک الحال لوگوں کا وہ ملک ہے جس کے مقتدر طبقے نے عوام کی بجائے اپنے وقتی فائدے کے لئے سامراجی طاقتوں کے مفادات کی جنگ لڑی اور اپنے وطن کو جنّت بنانے کی بجائے بد امنی کے انگاروں میں جھونک دیا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ملک ٹوٹنے کے المیے کے بعد بھی وہی غلطیاں دہرائی جار ہی ہیں جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ کیا ان حلقوں نے کبھی سوچا ہے کہ آزادی کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ کیا غیر ملکی حکمرانوں کی جگہ ملکی حکمرانوں کی ’’ چہرہ بدلی‘‘ ہی آزادی ہے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ آزادی کا مطلب انسان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ جن میں اس کے اظہار ِ رائے ، حصول ِ روزگار اور سیاسی و جمہوری حقوق کی فراہمی شامل ہے جن کے ذریعے وہ خود کو معاشرے اور حکومت کا حصّہ سمجھنے لگتا ہے اور پورا معاشرہ یکمشت ہو کر ایک مضبوط قوم بن جاتا ہے۔ اور یہی مضبوط قوم پھر مضبوط لیڈر پیدا کرتی ہے جو کسی مخصوص ادارے یا شخصیت کی تخلیق نہیں ہوتے بلکہ عوام کے اجتماعی شعور کی پیداوار ہوتے ہیں اور عوام کا اجتماعی شعور ہی کسی قوم کی حقیقی طاقت ہوتا ہے لیکن قوم کی اس حقیقی طاقت کے ساتھ پاکستان میں جو سلوک کیا گیا اس کے خوفناک نتائج قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ یہاں عوام کے جمہوری حقوق مانگنے والوں کو سزائے موت، اقتدار سے برطرفی، جلاوطنیاں ، قیدو بند، اظہارِ رائے پر پابندیوں اور سرِ عام کوڑے مارنے تک کی سزائیں دی گئیں ۔ عوامی مینڈیٹ کی کھلم کھلا توہین کے ذریعے من پسند افراد کو اقتدار دیا گیا۔ آئین سازوں کو تختہ دار اور آئین شکنوں کو تخت نشین کیا گیا۔ دنیا بھر میں نظامِ حکومت یعنی’’ آئین کی بالا دستی یا جمہوریت ‘‘ کی جگہ ہر طرح کامتنازعہ نظام آزمایا گیا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ غربت، مفلسی ، بیروزگاری ، بدامنی ، انتہا پسندی اور ایک دوسرے سے نفرت ۔ اپنے ہی لائے ہوئے مہرے جب عوام میں مقبول ہونے لگتے ہیں تو ان کی بیخ کنی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یوں سازشوں کا یہ لا متناہی سلسلہ روزِ اوّل سے جاری ہے۔ جس نے پاکستان کو ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھا ہے۔ اور اُس کی موجودگی میں پائیدار ترقی کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر قوم کو آج تک ان سازشوں سے کوئی فائدہ پہنچا ہے تو انہیں یقیناََ جاری رکھا جا نا چاہیے ورنہ حُب الوطنی کا تقاضا ہے کہ سازشوں کا یہ کھیل بند کر دیا جائے اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح فیصلہ سازی کا حتمی حق عوام کو لوٹا دیا جائے کہ یہی آزادی کا حقیقی مفہوم ہے۔ اسی حوالے سے اپنی ایک نظم کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں،

جشنِ آزادی کیا منائیں ہم

پھر سے دل اپنا کیا جلائیں ہم

باہر عنوان صرف بدلے ہیں

لیکن اندر وہی کہانی ہے

سانحہ ہے یا جشنِ شادی ہے

تم بتائو یہی آزادی ہے

تازہ ترین