• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ ٹیکنالوجی جو ہمیں جوڑتی ہے ، وہی ہمیں کنٹرول بھی کرتی ہے، تقسیم بھی کرتی ہے، ہماری توجہ اصل مدعوں سے ہٹاتی ہے اور ہمارے ذہنوں کو متاثر بھی کرتی ہے ، یہ سب کام غیر محسوس انداز میں انسانی ذہن میں کیے جارہے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ٹیک ماہرین کا ہم پر ایسا کنٹرول نہیں رہا کہ ہم کیا سوچتے ہیں، کیسے عمل کرتے ہیں اور کیسے اپنی زندگی جیتے ہیں؟ یہی کنٹرول سوسائٹی کے لئے المیہ ثابت ہورہا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے استعمال سے خود کو روک نہیں پاتے،سوشل میڈیا کے استعمال سے پہلے اور اب ہمارا مزاج ، عادات بدل گئی ہیں جن کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کو دنیا کا بہت بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے کلچر اور سوچ جس میں ہم، ہماری معلومات کے ذرائع اور سچ کو جاننے کے طریقہ کار پر ایک بظاہر نظر نہ آنے والی قوت کارفرما ہے جس کو ہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کہتے ہیں۔ حال ہی میں ریلیز ہونےوالی ڈاکومنٹری سماجی المیہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں کام کرنے والے ماہرین نے اس مسئلے کو دنیا کے بہت سارے مسائل کی جڑ قرار دیا ہے۔

2018 میں 5000 افراد پرکیے گئے ایک ریسرچ سروے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا کوئی صارف سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرتا ہے ، اتنا ہی زیادہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ غیر مطمئن زندگی گزارنےلگتا ہے۔ سوشل میڈیا کا دوسرا بڑا المیہ جھوٹی سیاسی مہمات کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے، نیویارک ٹائمز کے مطابق جھوٹی سیاسی مہمات کے شکار ممالک کی تعداد میں گزشہ دوبرس میں دوگنااضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ مزید، معاشرے میں بڑھتی تفریق اور شدت پسندی کے رویوں کے پس پردہ بھی سوشل سائیٹس کا کردار نظر آرہاہےـ 2018 میں فیس بک کی جاری ہونے والی اندرونی رپورٹ کے مطابق 64 فیصد لوگ جنہوں نے شدت پسندی پر مبنی گروپس کو جوائن کیا اس کی وجہ فیس بک الگورتھم ہے جس نے انہیں وہ گروپ ان کی وال پر دکھائے اور وہ اس کا حصہ بنے۔ یہ ان پیچیدہ مسائل کی جھلک ہے جس سے آج کے انسان کا ہر لمحہ واسطہ پڑرہا ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال سے بار بار اسکرین پر نظر آنے والے نوٹیفکیشنز اور بغیر کسی روک ٹوک کے نیوز فیڈ کو اسکرول کرنے کے لامتناہی فیچر نے ہر انسان کو اس کی ڈیوائس سے باندھ کر رکھ دیا ہے۔ ڈیجیٹل نوٹیفکیشنز نے بار بار سگنلز بھیج کر ہمارے ذہنوں کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا ہے کہ جب بھی کوئی نوٹیفکیشن ہماری اسکرین پر نمودار ہو تو ہمیں لگتا ہے کہ اس کو چیک کرنا انتہائی لازمی اور اہم ہے، ہم اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے اس ایک نوٹیفکیشن کو چیک کرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اسی میں کھو جاتے ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق ایوریج سات منٹ کے بعد انسان کو اس کا احساس ہوپاتا ہے کہ وہ اور کام کر رہا تھا جو نوٹیفکیشن کی وجہ سے رک گیا تھا۔ یوں چند منٹ اپنے کام سے توجہ ہٹا دینے سے ہماری غیر اہم چیزوں پر توجہ بڑھنے کے علاوہ ایک وقت میں بہت سے کام ایک ساتھ جاری رکھنے کی عادت بن جاتی ہے جس سے ہماری ذہنی صحت بری طرح متاثرہورہی ہے۔ آپ ایک بار اپنی نیوز فیڈ مکمل دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اسے ریفریش کرتے ہیں تو بالکل نئی نیوزفیڈ نمودار ہوجاتی ہے، آپ اسے مکمل دیکھتے ہیں اور پھر ریفریش کرکے نئی نیوز فیڈ دیکھنے لگ جاتے ہیں، یوں یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے حتٰی کہ آپ کے موبائل کی بیٹری ختم ہوجائے، یا آپ کو کسی انتہائی ضروری کام میں مصروف ہونا پڑے ۔

کسی بھی انسان کی یہ حیاتیاتی ضرورت ہے کہ وہ لوگوں سے جڑا رہے اور اسی ضرورت کو سوشل میڈیا ڈیزائن کرنے والے ماہرین نے اپنے پروگرامز کے ذریعے فروغ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس پر آنے والے لائکس انسان کی وقعت کے حوالے سے خاصا اثر مرتب کرتے ہیں- ہم سوشل میڈیا پر ہونے والے لائکس کو شمار کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ کس نے کب کونسی پوسٹ لائک کی اور اس سے بڑھ کرہم کسی بھی انسان کو اس کے سوشل میڈیا پر ملنے والے لائکس کی بنیاد پر دیتے ہیں ۔ اس طرح کے سماجی تقابل نے انسان کو غیر صحت مندانہ مقابلے میں لاکھڑا کیا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر ہر وہ چیز ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اسے لائکس ملیں اور ہر اس چیز کو اگنور کرتا ہے جس کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کم پذیرائی ملی ہو۔ ہماری انہی عادات، ضروریات کو پروگرام کرنے کی بدولت ہماری ذہنی صحت پرسمجھوتہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا ویب سائٹس سالانہ اربوں ڈالرز کما رہی ہیں۔

ہارورڈ اسکول آف بزنس کی پروفیسر اور مصنفہ شوشانہ زوبف کے مطابق ایسا کوئی بھی معاشرہ جمہوریت کے لئے موافق نہیں جس میں اس کے خیالات کو سازش کے ذریعے پراگندہ کردیاجاتا ہو اور اس کے سوچنے سمجھنے کی آزادی کو کنٹرول کیاجاسکتا ہو۔ جمہوریت بنیادی طور پر کسی الف اور بے امیدوار میں سے کسی کو چننے کا نام نہیں بلکہ اس عمل کا نام ہے کہ جس میں آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے امیدوار کی اصلیت کیاہے اور سوشل میڈیا اسی عمل میں رکاوٹ بھی بن رہا ہے۔ کیونکہ الگورتھم کے ذریعے سے یکساں سوچ رکھنے والے افراد کو جوڑ دیا جاتا ہے اور وہ باہر کی دنیا سے ناواقف ہوجاتے ہیں۔ہر فرد سمجھتا ہے کہ اس کے پاس موجود معلومات درست ہیں کیونکہ اس نے فلاں فلاں ویب سائٹ سے پڑھا ہے، فلاں فلاں سوشل میڈیا صارف نے اس بات کی تائید کی ہے۔ اصلاً ایک باکس کے اندر صارف کو بند کردیا جاتا ہے ، وہ اسی باکس کو اپنی پوری دنیا کا سچ سمجھ لیتے ہیں۔ یوں معلومات تک رسائی اور سچ جاننے کے طریقہ کار کے بدلاؤ نے ہمارے سامنے نئے مسائل لاکھڑے کیے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیز پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور وہ پرائیویسی پالیسی ، فیک نیوز کے حوالے سے نئے قواعد و ضوابط بنا رہی ہیں لیکن یہ اس وقت تک ناکافی ہوگا جب تک سوشل میڈیا کے صارفین خود اس کا ذمہ دارانہ استعمال شروع نہیں کردیتے اور اپنی سوشل میڈیا لائف میں توازن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

تازہ ترین