• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور جدید ، ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ دنیا میں ہر جانب ٹیکنالوجی کا تانا بانا نظر آتا ہے ۔دنیا دو قسم کے ممالک میں بٹی ہوئی ہے ، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، لیکن ایک صنف جو دونوں میں تفریق کرتی ہےوہ ہے ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ شعبوں میں ترقی کی دوڑ، ترقی یافتہ ممالک نئی سے نئی ٹیکنالوجی اپنانے میں مصروف ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی برابری کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ ان حالات میں سب سے اوّلین ترجیح جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے اعلیٰ تعلیمی مراکز کا قیام ہے جو کثیر افرادی قوت کو جدید ترین ٹیکنالوجیز اور ان سے منسوب دیگر شعبہ جات میں بہترین تربیت سے لیس کرسکیں ۔ بحیثیت ایک محبّ وطن پاکستانی میں نے آج سے بیس سال پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کی درآمد میں اضافے کے لئے تربیتی اداروں کا قیام ضروری ہے جو صنعتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے قا ئم کئے جائیں ۔ ان تمام نکات کی روشنی میں میں نے اعلیٰ تکنیکی خصوصیات سے لیس ایسی جامعات کے قیام کے بارے میں سوچا جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی تربیت بھی بہم پہنچا سکیں، چونکہ جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین بیرون ممالک میں ہی موجود ہیں لہٰذا غیر ملکی اشتراک ان جامعات کو چار چاند لگا دے گا یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنی اس سوچ کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لئے اور اس ملک کی بقا کے لئے غیر ملکی شراکت داری سے ایسی جامعات قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو انجینئرنگ جامعات کے ساتھ ساتھ’’ فاخ ہوخ شولے‘‘ کی طرز پر بھی کام کریں یہ انوکھی سوچ نہ صرف کابینہ نے منظور کی بلکہ غیر ملکی جامعات نے بھی سراہا لیکن گزشتہ حکومت نےعین اس وقت ان جامعات کو کام شروع کرنے سے روک دیا جس وقت غیرملکی اشتراک سے قائم یہ جامعات کلاسوں کا آغاز کرنے والی تھیں۔ موجودہ حکومت نے میری تجویز کو سراہا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہری پور ، منگ میں ایک جامعہ پاک آسٹریا کے نام سے قائم کی جاچکی ہے اور دوسری سیالکوٹ ، سمبڑیال میں قائم کی جائیگی جس کی منظوری کابینہ نے حال ہی میں دی ہے اور اسی طرز کی تیسری جامعہ وزیر اعظم ہاؤ س کے پیچھے کی زمین پر قائم کی جانے والی ہے ۔ یہ انوکھی طرز کی جامعات یقیناً دور حاضر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملکی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔ اسلام آباد سے 50میل کے فاصلے پر ، پشاور جانے والی مرکزی موٹروے سے دور ، ایک نئی جامعہ پاک آسٹریا فاخ ہوخ شولے قائم کی گئی ہے ، یہ اس خواب کی تعبیر ہے جس کے لئے میں گزشتہ 15سال سے سر گرداں تھا ۔ یہ منصوبہ 2005 میں شروع ہوا جب میں نے جرمنی ، فرانس ، سویڈن، آسٹریا ، اٹلی ، چین ، کوریا اور دیگر ممالک کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں اعلیٰ معیار کی انجینئرنگ جامعات کا نیٹ ورک قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ بطور چیئرمین ایچ ای سی ، میں نے یہ تجویز صدر مشرف کے سامنے پیش کی اور ان کا پورا تعاون حاصل کیا۔اس کے بعد میں نے بہت سےممالک کا دورہ کیا اور 30غیر ملکی معروف جامعات کو راضی کیا کہ وہ پاکستان میں سات غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے قیام میں تعاون کریں۔

اکتوبر 2008میں عمارتوں میںعارضی طور پر انتظامات کے بعد کلاسز کا آغاز ہونا تھا ، لیکن یہ پورا پروگرام اقتدار میں آنے والی پی پی پی کی نئی حکومت نے ترک کردیا۔ تاہم میں نے اپنی کوششیں برقرار رکھیں اور بالآخر دس سال بعد ، عمران خان صاحب کی بھرپور حمایت سے ، خیبر پختونخوا حکومت نے 2018 میں پاک آسٹریافوخ ہوخ شولےکے منصوبے کی منظوری دے دی۔فوخ ہوخ شولے جرمنی ، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈمیں اعلیٰ سطح کے کثیرفنی و تکنیکی ادارے ہوتے ہیں جہاں صنعت و حرفت کے اطلاقی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری پیش کرتے ہیں۔ ایسے طلباء کی صنعتوں میں بھر پور مانگ ہوتی ہے کیونکہ یہ طلباء نظریہ انجینئرنگ ہی نہیں بلکہ اپنی تعلیم کو اطلاقی سطح پر موزوں طریقے سے استعمال کرنے کے بھی تربیت یافتہ ہوتے ہیں ،نیز وہ صنعتی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کیلئے بھی تیار ہوتے ہیں۔میں چاہتا تھا کہ ایسی تربیت سے لیس ایک نئی قسم کی جامعہ بنائی جائے جو کہ ایک فوخ ہوخ شولے اور ایک مکمل انجینئرنگ جامعہ ہو جو انجینئرنگ کی تعلیم کے مختلف جدید شعبوں میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹوریٹ سطح پر طلباء کی تربیت کرے۔ جامعہ کا مرکز ایک ٹیکنالوجی پارک ہوتاکہ اس جامعہ کا بنیادی مقصد صرف تعلیم کی فراہمی یا تحقیق کرنا ہی نہیں بلکہ ایسی مصنوعات کی ترقی اور ان کی مدد کرناہو جو پاکستان میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافے کے لئے معاون ثابت ہوسکیں۔ دنیا میں ایسی کوئی مخلوط انجینئرنگ یونیورسٹی موجود نہیں تھی ، لیکن غیرملکی شراکت دار میرے اس انوکھے تصور پر پُرجوش تھے اور جوش و خروش سے ایسے ادارے کے قیام میں مدد پر راضی ہوگئے ۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی جامعہ ہے کیونکہ یہ متعدد خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ آسٹریا اور چین کی آٹھ جامعات کے تعاون سے شاید دنیا کی پہلی جامعہ ہے جوبہترین طلبہ کو اپنی ڈگریاں پیش کرے گی۔ اس سے ملک میں انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس ٹیکنالوجی پارک کے لئے تقریبا دس ملین ڈالر رکھے گئے ہیں جس سے آسٹریا ، چین اور پاکستانی صنعت کیساتھ شراکت سےبہت سی تجارتی مصنوعات تیار کرنے میں مدد ملے گی۔

برسوں کی کوششوں کے بعد ، میں نے حال ہی میں حکومت پنجاب کو سیالکوٹ کے قریب ایسی ہی یونیورسٹی کے قیام کیلئے راضی کیا ہے۔ اس طرح کی ہائبرڈ انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام کے منصوبے کو حکومت پنجاب نے دو ماہ قبل منظور کیا تھا اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو ، یہ نئی یونیورسٹی تین سال میں کام کرنا شروع کردے گی۔ اس جامعہ کا مقصد ایک بار پھر اپنے نوجوانوں کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور ان سے وابستہ تمام نئے علوم سے آراستہ کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری موجودہ تعلیمی سطح اور بین الاقوامی صنعت کے تقاضوں میں پائے جانے والے فرق کو ختم کیا جاسکے گا بلکہ مقامی صنعت کو زیادہ تجربہ کار اورباصلاحیت افراد فراہم کرکے ملکی معیشت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملےگی۔

تازہ ترین