• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ہم اکثریت میں ہوتے تو کیاعلیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں۔ پاکستان بنانا ہی اس لئے پڑا کہ ہندو کی بھاری اکثریت تھی اور یہ طے شدہ بات تھی کہ اکثریت کے بل بوتے پر ہندو ہمارا استحصال کرتے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب میں ”ہندو“ کالفظ بولتا یا لکھتا ہوں تو میرے ذہن میں بنیادی طور پر ”برہمن“ ہوتا ہے وہ مظلوم شودر، دلت، ملچھ نہیں جوخود اپنے اشراف کے استحصال کا شکار ہے۔ مختصراً یہ کہ برصغیر میں ہم ”اقلیت“ تھے ”ون مین ون ووٹ“ کی بنیاد پر پڑنے والا ووٹ ہماری رہی سہی اور بچی کھچی بنیادیں بھی کھوکھلی کردیتا سو ہم نے ایسی جمہوریت پرلعنت بھیجی۔
پھر پاکستان بن گیا ۔ ایک حصہ مغربی، دوسرا مشرقی پاکستان کہلایا توتاریخ نے ایک مضحکہ خیز موڑ کاٹا اور اکثریتی حصہ بجاطور پر شاکی پایا گیا کہ اقلیت (مغربی پاکستان) اکثریت (مشرقی پاکستان) کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے، ان کا استحصال ہو رہا ہے سو 25 سال سے بھی کم مدت میں محبت نفرت، اتحاد انتشار، ملاپ علیحدگی اور جمع کا عمل تقسیم میں تبدیل ہوگیا۔ فیض احمد فیض# نے کہا ”خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد“ لیکن دھبے تو کیا دھلنے تھے… خون ہے کہ رسنے، رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ متحدہ پاکستان کی ”حفاظت“ کے الزام میں بنگلہ دیش کی عدالت نے 90 سالہ پروفیسر غلام اعظم کو90 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ بظاہر 90 سالہ آدمی کو 90 سال قید کی سزا مضحکہ خیز ہے لیکن جس کی علامتی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کون کیاہے؟ کا فیصلہ بنگالیوں کی ”اکثریت“ نے کرنا ہے کہ یہی جمہوریت کی ”روح“ ہے جس کی رگوں میں ”انصاف“ نہ ہو تو اسے بالاخر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا جاتا ہے یعنی جہاں ”ایکسپلائٹیشن“ ہو یا پھر جہاں ”ایکسپلائٹ“ ہو جانے کاخدشہ، خطرہ، امکان ہو وہاں جمہوریت کا جگاڑ قائم نہیں رہتا۔ پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کا قیام ایک ”ترازو“ سمجھیں اور دیکھیں بالآخر پلڑا کس طرف جھکا؟ ہندو تو ظاہر ہے ”ہم مذہب“ نہ تھے لیکن وہ جو ہم مذہب تھے، بھائی تھے، کلمہ گو تھے وہ بھی 1947 سے 1971 تک کے بعد چند سال کے اندر اندر علیحدہ اور علیحدگی بھی ایسی جس کے زخم ابھی تک بھرنے نہیں پارہے، وہیل چیئر پر بیٹھے 90سالہ معذور بزرگ غلام اعظم کی تصویر مجھے مسلسل ہانٹ کر رہی ہے۔
یہ سب کچھ ٹوٹ ٹوٹ کر یاد آ رہا ہے کہ میں نے گزشتہ رات ٹی وی پر ایک خاتون سیاستدان کو ہزیانی انداز میں یا یوں کہہ لیجئے کہ ہیجانی انداز میں پنجاب کی ”اکثریت“‘ کو مختلف حوالوں سے مورد ِالزام ٹھہراتے سنا ہے۔ خاتون کا تعلق ”کے پی کے“ سے تھا لیکن وہ سندھ اور بلوچستان کا کیس بھی مہارت سے پیش کر رہی تھیں اور میں تاریخ کی بھول بھلیوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ سچ جھوٹ اپنا اپنا اور دور کی بات جبکہ اس کھیل میں تاثر، ”پرسیپشن“ ہی آخری فیصلہ سناتا ہے۔ ”پرسیپشن“ کیا ہے؟ اس کا فیصلہ آپ خود ہی کرلیں۔
”میکرو“ کیا ہم تو ”’مائیکرو“ ترین لیول پر بھی منصفانہ رویئے اپنانے سے گریزاں ہیں۔ پچھلے دنوں کسی سنڈے میگزین میں حسین نقی صاحب کا انٹرویو پڑھا جس سے علم ہوا کہ ٹین ایجر حسین نقی کو بھلے وقتوں خلیق الزمان جیسی شخصیت نے کہہ دیا تھا … ”صاحبزادے! تم کن چکروں میں پڑے ہو یہ ملک تو بنا ہی لوٹ مار کے لئے ہے“ پھر مجھے سر ونسٹن چرچل سے لے کر اپنے ایک جینئس علامہ عنایت اللہ مشرقی کی پیش گوئیاں یاد آئیں کہ ”آزادی“ کے بعد یہاں ہوگا کیا؟ بدقسمتی سے سوفیصد اسی طرح ہو رہا ہے۔66,65 برس کچھ کم نہیں ہوتے۔ پہلے چند عشرے ہی فیصلہ کردیتے ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ لیکن یہاں ایسے نابغوں کے لشکر در لشکر ہیں جو یہی راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ قوموں کی زندگی میں 100,50 سال کی اہمیت ہی کوئی نہیں۔ کیسی کیسی ہیروئین اور افیون ہے جس کی فروخت پر نہ کوئی پابندی ہے اور نہ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسے مہربان بھی ہیں جو”تاابد“ قائم رہنے کی خوشخبریاں سناتے وقت بے رحمانہ بے نیازی کے ساتھ بنگلہ دیش کو بھول جاتے ہیں جہاں 90 سالہ بوڑھے کو 90 سال کی سزا اس ”جرم“ میں سنائی گئی کہ وہ ہر قیمت پر پاکستان کو متحد رکھنا دیکھنا چاہتے تھے اور بری طرح ناکام رہے۔بہت بڑے شفٹ کی ضرورت ہے۔ مائنڈ سیٹ میں یوٹرن نہ آیا توپھر پوائنٹ آف نو ریٹرن اور نتیجہ زیرو پوائنٹ۔ تازہ ترین انتخابات کے نتائج پر ٹھنڈے دل اور بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو آدمی ”فائرہاٹ“ قسم کے نتائج پر پہنچے بغیر رہ نہیں سکتا لیکن یہاں تو جسے دیکھو خوابوں، خواہشوں، ”مثبت“ خیالوں میں گم ہے۔نوٹنکی بازی، ڈرامہ گیری، سستی جذباتیت، سفلی دلیل گردی اور خود فریبی کو ایک لمحہ کے لئے خود سے نوچ کر پرے پھینکیں اور خود کواپنے کسی حاسد یا حریف کی آنکھوں سے دیکھیں اور بتائیں یہاں درست، صحیح، مثبت اور تعمیری کیاہے؟ آگ کی لپٹیں ہیں اور کسی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں جو جھلستے بدن کو تھوڑا سا سکون بھی دے سکے۔جہاں کئی ہسپتال ڈاکٹروں کی اسامیوں میں اضافہ کے لئے گڑگڑا رہے ہوں، لاکھوں بچے درسی کتابوں کے لئے ترس رہے ہوں، گندے پانی نے ہیپاٹائٹس مقدر میں لکھ دیا ہو، رمضان میں راہزنی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہو، نام نہاد سستے بازاروں میں ناپ تول کے پیمانوں میں ہیرا پھیری عروج پر ہو، معزز ترین بجلی گیس کی چوری میں ملوث ہوں اور ذرا کروڑوں روپے کی گیس چوری کرنے والے کارخانوں کے نام تو ملاحظہ فرمائیں۔ داتا سٹیل مل، ماشا اللہ گتہ فیکٹری، ایئرہوسٹس سمگلنگ میں ملوث، جنگجوؤ ں کی ایکسپورٹ سرعام، نندی پور پاورپراجیکٹ نئی حکومت کی میگا کرپشن یامیگا نااہلی کی کہانی سنا رہا ہے تواس بزکشی کے میدان میں دو شعر ہی پیش کرسکتاہوں۔ بلٹ ٹرینیں تو بعد میں پیش ہوں گی۔یہ گفتگو ہے کسی اور ہی زمانے سے مرا خطاب ترے عہدِ رائیگاں سے نہیں اور دوسرا شعر اس سے بھی معنی خیز…میں دریا کو بنا بیٹھا تھا دشمن مگر گھر بھی بچانا چاہتا تھاآپس میں ہی ایک دوسرے کے دشمن نہیں … باہر بھی یہی کچھ پالنے کا شوق ہے!
پہلا شعر ارشد نعیم اور دوسرا ارشد نذیر کا ہے۔
تازہ ترین