• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمّد سہیل گل، پتوکی

ربِ کائنات نے زمین کو سرسبز و شاداب جنگلات، قدآور درختوں، لہلاتی فصلوں، کھیتوں، آب شاروں، دریاؤں، سمندروں، پہاڑوں اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال کیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس صاف ستھرے ماحول میں بعض ایسے مضر اجزاء یا مادّے شامل ہورہے ہیں، جوآلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ کرہ ٔارض میں آلودگی پیدا کرنے والے عوامل قدرتی بھی ہو سکتے ہیں اور انسان کے اپنے پیدا کردہ بھی۔ 

اگر ہم قدرتی عوامل کی بات کریں، تو اس کی بڑی مثال آتش فشاں پہاڑ ہیں، جن کے پھٹنے پر دھواں اور راکھ ماحول آلودہ کردیتے ہیں،جب کہ انسان کے پیدا کردہ محرکات کی تو ایک طویل فہرست ہے۔بہرکیف، یہ ماحولیاتی آلودگی نہ صرف امراض میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، بلکہ جسم کا دفاعی نظام بھی بُری طرح متاثر کررہی ہے۔ آلودگی کی کئی اقسام ہیں،جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں منفی کردار ادا کرتی ہیں۔

٭ فضائی آلودگی:آلودگی کی تمام اقسام میں سب سے خطرناک فضائی آلودگی ہے،جس نےہر جان دار کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں روزانہ لاکھوں افراد فضائی آلودگی سے متاثر ہوکر مختلف عوراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ان عوراض میں سانس کی نالیوں کی سوزش، دَمہ، سینے کا انفیکشن، دِل کے امراض ،بُلند فشارِخون، ہارٹ اٹیک، انجائنا اور فالج کا حملہ وغیرہ شامل ہیں۔ 

فضائی آلودگی کےکئی اسباب ہیں۔ مثلاً کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگنا ، صنعتی شعبہ جات میں استعمال ہونے والے مختلف فوسل فیولز(Fossil fuels)، اینٹوں کے بھٹّے، چمنیوں اور راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اُٹھتا دھواں، ردّی، ناکارہ اشیاء جلانے، پُرانی عمارتیں گرانے اور نئی تعمیرات کا عمل وغیرہ۔

علاوہ ازیں، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع، اِن ڈور آلودگی مثلاً قالین، مچھر مار اسپرے، تمباکو نوشی اور وینٹی لیشن کا مناسب انتظام نہ ہونے جیسے عوامل بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتےہیں۔ بظاہرلگتا ہے کہ درج بالا اسباب صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ، مگر مضرِ صحت مادّے جیسےکاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، ایندھن سے خارج ہونے والے بخارات، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن وغیرہ فضا میں شامل ہو کر انسانی صحت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے، فضائی دھوئیں میں ایک وقت میں 8سے 10 سگریٹس کے دھوئیں کے برابر مضرِ صحت مادّے پائے جاتے ہیں، جن کے باعث فضا میں پائی جانے والی حفاظتی تہہ، اوزون میں شگاف بڑھ جاتا ہے اور جو اسموگ کی صُورت بھی ظاہر ہوتا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کا شمار بھی اسموگ سے متاثرہ مُمالک میں کیا جارہا ہے۔ تاہم، پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اسموگ دراصل دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بنتی ہے، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اسموگ کوکیمیائی حیثیت کی بنیاد پردو اقسام سلفورس اسموگ(Sulfurous Smog)اور فوٹو کیمیکل اسموگ (Photochemical Smog) میں منقسم کیا گیا ہے۔ ہوتا یہ ہے، نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والا دھواں اور مختلف کیمیائی مادّے وغیرہ مِل کر گرائونڈ لیول اوزون (O3)بناتے ہیں،جومضرِ صحت اوزون کہلاتی ہے۔ 

اس کے 2سے 3مائیکرو میٹر سائز کے ذرّات بھی جان داروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ گرائونڈ لیول اوزون زمین کے قریب ہونے کی وجہ سے صرف انسانوں ہی پر نہیں، پودوں اور درختوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ فوٹو سنتھیسز کا عمل متاثر ہونے سے پودوں کی قدرتی رنگت کم یا سِرے سے ختم ہوجاتی ہے، جب کہ ان کے بڑھنے اور پھلنے، پُھولنے کے عمل پر بھی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ چوں کہ درخت ،ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے اور زمین کا درجۂ حرارت نارمل رکھنے میں اہم کردار کرتے ہیں، لہٰذا جب یہ متاثر ہوتے ہیں، تو آلودگی بھی بڑھتی ہے۔ پھر اسموگ کے نتیجے میں مختلف بیماریوں مثلاً پھیپھڑوں کے امراض، خصوصاً برونکائٹس، دَمے، تپِ دق، دِل، جِلدی اور آنکھوں کے امراض کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔

اسموگ کے مضر اثرات شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں کہ عام طور پر ایسے بچّوں کا وزن کم ہوتا ہے اورپیدایش کے بعد ذہنی امراض میں مبتلاہو نے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔علاوہ ازیں،اس کی وجہ سے بڑے شہروں میں نہ صرف ٹریفک کئی کئی گھنٹے جام رہتی ہے،بلکہ حادثات کا بھی باعث بنتی ہے۔ اسموگ سے کسی حد تک محفوظ رہنے کے لیےچند احتیاطی تدابیراختیار کی جاسکتی ہیں۔

مثلاً اسموگ کی صُورت غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریزکیا جائے۔ باہر نکلتے وقت ماسک استعمال کریں، آنکھوں پر چشمہ لگائیں، پانی زیادہ سے زیادہ پیئں، شجر کاری کریں۔فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراداپنے کام کی مناسب سے اپنی حفاظت کریں۔کوڑا کرکٹ اورفصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والا کچرا یعنی جڑیں، ٹہنیاں اور شاخیں مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائی جائیں۔ نیز،حکومتی سطح پربھی اسموگ سے محفوظ رہنے کے لیے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔خاص طور پرٹمبر مافیا اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو چیک کیے بغیر سرٹیفکیٹس جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

٭آبی آلودگی:زمین کا زیادہ ترحصّہ آبی وسائل وآبی حیات پر مشتمل ہے۔مختلف آبی ذخائر مثلاً دریا، سمندر اور جھیلیں وغیرہ جب کسی بھی سبب آلودہ ہوجائیں، تو اس کے اثرات نظامِ حیات پرلازماً مرتّب ہوتے ہیں۔ آبی آلودگی کی وجوہ میں صنعتی و گھریلو فضلہ،کوڑا کرکٹ اورپلاسٹک کا کچرا نذرِ آب کرنا، بحری جہاز سے خارج ہونے والا تیل اور زہریلے مادّے شامل ہیں۔ پھرمصنوعی کھاد اور زرعی ادویہ کے استعمال کے نتیجے میں بھی زیرِزمین پانی میں کیمیائی مادّوں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ زہریلے اور کیڑے مار اسپرے بھی آبی آلودگی بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔

٭کُوڑے کرکٹ کی آلودگی: اسے انگریزی میں"Garbage Pollution" کہا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ ایک جگہ جمع ہوتا رہے تو اس سےہر قسم کی آلودگی پھیلتی ہے۔ مثلاً کچرا کا تعفّن فضا میں شامل ہو کر اسے آلودہ کردیتا ہے۔اگر یہی کچرا سیوریج کے پائپس میں چلا جائے، تو رکاوٹ بننے کے نتیجے میں گلیوں، بازاروں میں گندا پانی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جو پھر آس پاس کا ماحول بھی آلودہ کرکے کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے۔

٭ شور /صوتی آلودگی:اگرچہ شوروغل سے پیدا ہونے والی آلودگی(Noise Pollution)دکھائی نہیں دیتی،لیکن ہر جان دار پر اثر انداز ضرورہوتی ہے۔ صوتی آلودگی میں ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں، موٹر سائیکلز، گاڑیوں، رکشوں، مشینوں کی آوازیں، ڈوربیل،پالتو جانوروں، پرندوں کی آوازیں، اونچی آواز میں بات کرنا اور گھڑی کی ٹک ٹک تک شامل ہیں۔ اس قسم کی آلودگی کے نتیجے میں قوتِ سماعت متاثر ہوجاتی ہے، جب کہ سَر درد، چڑچڑا پَن، بُلند فشارِ خون جیسے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اگرچہ دُنیا بَھر میں شور کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین تشکیل دئیے جا رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی عوام النّاس میں شعور و آگاہی اُجاگر کرنےکی بھی اشد ضرورت ہے۔

تاہم، اس ضمن میں بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرکے شور کی آلودگی سے بچا جاسکتا ہے۔جیسےاونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ہینڈز فری کم سے کم استعمال کیے جائیں، گھر کی غیر ضروری کُھلی کھڑکیاں، دروازے بند رکھے جائیں۔ ممکن ہو تو رہایش مین روڈ سے ہٹ کر اختیار کی جائے۔ گھر میں شور کرنے والے گھریلو آلات ایسی جگہ رکھے جائیں، جہاں سے شور باہر نہ آئے یا کم آئے۔ رہایشی علاقوں کو ایئر پورٹ سے دُور آباد کیا جائے۔ صنعتی اور رہائشی علاقوں کی حد بندی کی جائے۔ نیز،گاڑیوں کے سائلینسرز، ہارنز اور انجنز سے پیدا ہونے والے شور کا بھی سدِّ باب کیا جائے۔

٭گلوبل وارمنگ/موسمیاتی تبدیلیاں:آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین گیسز کےلیول میں اضافےسے زمین کادرجۂ حرارت معمول سے بڑھنا شروع ہوجائے اور ساتھ ہی جنگلات کی کٹائی کا عمل زیادہ اورشجر کاری کی شرح کم ہو، تو گلوبل وارمنگ کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔گلوبل وارمنگ جنگلات میں آگ، گلیشیرز کے پگھلنے، پانی کی مقدار میں اضافے، ضرورت سے زیادہ بارشوں، گرمی یا سردی، سیلابو، لینڈ سلائیڈنگز کا سبب بنتی ہے۔ روزمرّہ زندگی پران قدرتی آفات کے بعض اثرات فوری اور کچھ وقت کے ساتھ اثرانداز ہوتے ہیں۔

٭آلودگی کے زرعی اجناس پر اثرات: عام طور پر شہروں اور دیہات میں کاشت کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے، کیوں کہ دیہی علاقوں میں ان کی کاشت کے لیے نہری، جب کہ شہروں میں ناقص پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر کیمیائی کھاد، جراثیم کُش اسپرے اور فوڈ پروسیسنگ کے جدید طریقوں کی وجہ سے بھی اجناس متاثر ہورہی ہیں۔

٭آبی انواع کا معدوم ہوجانا: موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیرز پگھل رہےہیں اور سطحِ سمندر میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کے نتیجے میں متعدّد آبی انواع شدیدخطرات کا شکار ہیں۔

٭جنگلات کا کٹائو: اس بات سے قریباً ہر فرد واقف ہے کہ درخت، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے ماحول خوش گوار بناتے ہیں، مگر افسوس کہ ان کا بے دریغ کٹاؤ، سر سبز علاقوں کو پختہ کنکریٹ کی عمارتوں، سڑکوں میں بدلنے اور نئے جنگلات نہ لگانے جیسے عوامل موسمیاتی تبدیلیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں- پھر عموماً جنگلات سے غیر قانونی طور پر درخت کاٹ کر باقی ماندہ کو آگ لگا دی جاتی ہے، تاکہ چوری پکڑی نہ جا سکے۔یوں درختوں کا دھواں فضا کو انتہائی آلودہ کرنے کا سبب بن جاتاہے۔

٭مختلف کیمیکلز کی آلودگی: مختلف صنعتوں، فارما سوٹیکل فیکٹریوں میں کلوروفلورو کاربن(نامی کیمیکل کا استعمال عام تھا، جو اوزون کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ کیمیکل ریفریجریٹر اور اِن ہیلرز میں بھی بطورPropellentاستعمال ہورہا تھا۔ تاہم، اب سی ایف سی کو ہائیڈرو فلورو الکائن سے تبدیل کردیا گیا ہے جو فضا میں پائی جانے والی حفاظتی تہہ، اوزون کے لیے خطرناک نہیں۔

معاشرے کو آلودگی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نےقرآنِ پاک میں صفائی اور پاکیزگی کا حکم دیا ہے ،تاکہ ہم خود کو اور اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھ کر آلودگی سے محفوظ رہ سکیں۔ (مضمون نگار،ماہرِ امراضِ سینہ ہیں اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال، پتوکی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین