• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئندہ چند ہفتوں میں اپنی مرضی کا صدرلاکر وزیراعظم نوازشریف ایک ایسا گڑھ فتح کر لیں گے جہاں ایک عرصہ تک ان کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں نہ صرف آصف علی زرداری کے دور میں بلکہ اس وقت بھی جب غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری ایوان صدر کے مکین تھے۔ نوازشریف کیلئے صدارتی محل سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے صرف اس وقت آئے جب رفیق تارڑر وہاں موجود تھے کیونکہ وہ صرف اپنے آئینی اختیارات اور حدود میں رہ کر کام کرتے رہے۔ اب جب ہم آصف زرداری کو الوداع الوداع کہہ رہے ہیں تو ساتھ ساتھ نئے صدر کو خوش آمدید بھی کہہ رہے ہیں، صرف اس توقع کے ساتھ کہ وہ اس اعلیٰ مقام کو سازش کا مرکز نہیں بنائیں گے۔ آئین کے مطابق ان کا کام ان تمام مشوروں پر عمل کرنا ہے جو وزیراعظم دیتے ہیں۔ ان کے اختیارات وزیراعظم کے مشورے سے منسلک ہیں اور وہ کوئی آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
نہ صرف نوازشریف بلکہ اکثر و بیشتر منتخب وزرائے اعظم کی یہ چڑ رہی ہے کہ ان کے سر پر ایک بہت ہی طاقتور صدر بیٹھا ہو جس کے پاس اس حد تک صوابدیدی اختیارات ہوں کہ وہ جب چاہئے حکومت اور کابینہ کو چلتاکرے۔ چاہئے وہ محمدخان جونیجو تھے یا ظفر اللہ جمالی، ایسے صدر سے بیزار رہے ۔نوازشریف کے لئے تو خیر ایک ایسے صدر کے ساتھ چند ماہ بھی کام کرنا محال ہے ۔ غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کے ساتھ تو ان کی ایسی سخت ٹکر ہوئی کہ دونوں کو ہی گھر جانا پڑا۔ ہاں البتہ شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا قصہ مختلف ہے۔ چونکہ ان کے وزیراعظم بننے میں ان کی سیاسی مقبولیت کا دخل نہیں تھا اور وہ مکمل طور پر وقت کے صدر کے مرہون منت رہے لہٰذا جیسا صدر نے حکم جاری کیا انہوں نے سر تسلیم خم کیا بلکہ ان کی تو یہ کوشش رہی کہ وہ صدر کو ہر حال میں خوش رکھیں تاکہ ان کی ”نوکری“ بچ سکے ۔ ایسے صدور (پرویز مشرف اور آصف زرداری )کا یا تو ایک سیاسی وزن تھا یا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کہ وہ بہت بااختیار تھے اور جب چاہتے وزیراعظم کی چھٹی کرا دیتے لہٰذا حکومت کی اچھی یا بری کارکردگی کے ذمہ دار بھی وہی ٹھہرائے جاتے لہٰذا ملک کی جو بربادی پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی ہے اس کے ذمہ دار آصف زرداری ہیں کیونکہ اصل میں وہی حکومت کر رہے تھے۔
اپنی پسند کا صدر لا کر نوازشریف اپنے گزشتہ دور حکومت والا انتظام کرلیں گے جس میں نہ تو ایوان صدر سے کچھ خطرہ تھا اور نہ ہی پارلیمان سے، جہاں ان کی واضح اکثریت تھی لہٰذا ہر طرف سے سکھ چین ۔ جب 12/اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا تو نوازشریف کو پارلیمان میں دوتہائی اکثریت حاصل تھی اور صدر بھی اپنی پسندکا تھا۔ اس وقت ان کی پارلیمان میں وہ اکثریت یقینا نہیں۔ اب قومی اسمبلی میں ان کی سیٹیں کم ہیں اور سینیٹ میں تو ان کی حالت کافی کمزور ہے اور حکومت وہاں قانون سازی بھی نہیں کر سکتی تاہم اپنا صدر منتخب کر کے نوازشریف میں اعتماد مزید بڑھے گا اور وہ زیادہ اطمینان اور حوصلے سے اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔ ہمارے جیسے ملک میں صرف پارلیمینٹ میں اکثریت اور اپنی مرضی کا صدر ہونا ہی کافی نہیں بلکہ دوسرے اہم قومی ادارے یعنی افواج پاکستان یا یوں کہے۔
آرمی چیف کے ساتھ بھی نارمل تعلقات ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ان سے ٹکراؤ نہ ہو سکے۔ آرمی کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ صدر کو بااختیار ہونا چاہئے ضیاء الحق آئے تو 8سال حکومت کرنے کے بعد جو پارلیمان عام انتخابات کرا کے وجود میں لائے اس سے8ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تاکہ وزیراعظم کے ہوتے ہوئے بھی بہت سے اہم اختیارات بشمول قومی اسمبلی، وزیراعظم اور حکومت کی برطرفی ان کے پاس ہی رہیں اور وہ تمام اہم تقرریاں بھی کر سکیں ۔ غلام اسحاق خان نے ان اختیارات کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کو گھر بھیجا پھر فاروق لغاری بھی ان کا مزہ لیتے رہے ۔ پہلی بار اس غیر جمہوری آئینی ترامیم کو نوازشریف نے اپنی دوسری حکومت کے دوران متفقہ طور پر پارلیمان سے ختم کرایا اور صدر مکمل طور پر بے اختیار ہو گئے مگر بعد میں پرویز مشرف نے وہی اختیارات دوبارہ حاصل کر لئے جو گزشتہ حکومت اور اپوزیشن نے مل کر ختم کئے اور آئین اصل شکل میں بحال کیا تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم مکمل طور پر بااختیار ہو گئے اور صدر صرف ایک شو پیس بن گئے مگر چونکہ آصف زرداری کا پیپلزپارٹی پر مکمل کنٹرول تھا تو وہی اصل حکمران رہے اور ان کے وزیراعظم بے اختیار۔ آصف زرداری اب تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہیں، ان کے سیاسی مستقبل پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ ان کی ذاتی سیکورٹی کے بارے میں بڑے خدشات پائے جاتے ہیں خصوصاً ان کے انتہائی پراعتماد سیکورٹی چیف بلال شیخ کے کراچی میں قتل کے بعد ۔ یہ نہ صرف ہمیں بلکہ بہت سے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو بھی معلوم نہیں کہ ان کی جماعت کو کیسے دوبارہ پرانی حالت میں بحال کرنا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تو یہ سندھ تک محدود ہو گئی۔ آصف زرداری کے دور میں ایوان صدر حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کو بھی اس وقت مداخلت کرنا پڑی جب مختلف درخواستیں وہاں فائل کی گئیں۔ ان کے فیصلوں کی روشنی میں صدر کا عہدہ غیر جانبدار ہونا چاہئے اور اسے کسی سیاسی جماعت کے فائدے یا نقصان کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے ۔یہ اعلیٰ عہدہ تقاضا کرتا ہے کہ صدر کا سلوک تمام لوگوں کے ساتھ یکساں ہو۔ اگر ایوان صدر سیاسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہو گا تو اس پر کیچڑ بھی اچھالی جائے گی جس سے صدر ایک متنازع شخصیت بن جائیں گے، آئین جس کی اجازت نہیں دیتا تاہم باوجود ان عدالتی فیصلوں کے آصف زرداری نے ہمیشہ ایوان صدر کو سیاست کا مرکز بنائے رکھا۔ آخری چند ماہ میں ان کے وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں یہ انڈر ٹیکنگ دے دی کہ اب وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدالت مطمئن ہو گئی اور ان کے خلاف کارروائی ختم کر دی گئی۔ آصف زرداری کے پاس تمام اختیارات تھے وہ ایک طرح سے صدر بھی تھے اور وزیراعظم بھی۔ پاکستان میں اتنے زیادہ اختیارات کم ہی سیاسی شخصیتوں کے ہاتھ لگے ہیں مگر ظاہر ہے وہ بری طرح ناکام ہوئے اور ان کی تمام سازشیں جو وہ ایوان صدر میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتے رہے دھری کی دھری رہ گئیں اور ان کے مد مقابل کامیاب ہوئے۔ 11مئی کو ہونے والے پہلے عام انتخابات تھے جو پیپلزپارٹی نے بغیر کسی بھٹو کے لڑے اور جن میں آصف زرداری کی کارکر دگی کا ٹیسٹ تھا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
تازہ ترین