الطاف بھائی کی زندگی خطرے میں ہے۔”یاسلامُ‘ کا ورد جاری رکھیئے ۔متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ برطانوی میڈیا رپورٹ سے متحدہ کے خلاف باقاعدہ ”عالمی سازش“ کا آغاز ہوگیا ہے۔پتہ نہیں عالمی طاقتیں بیچارے الطاف حسین کے خلاف کیوں ہو گئی ہیں ۔وہ تو بڑے نستعلیق آدمی ہیں ۔شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں ،کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی اردو بولتے ہیں ۔زرداری ہاؤس والے کہتے ہیں صدر زرداری کی اردو انہی کے ساتھ مسلسل ٹیلی فونک گفتگو کے سبب اتنی نکھر آئی ہے وگرنہ وہ تو پوچھا کرتے تھے فرزانہ راجہ چلا گیا ہے مولانا فضل الرحمن آئی ہے ۔الطاف حسین آرٹ کے بھی دلدادہ ہیں ،موسیقی کو روح کی غذا سمجھتے ہیں ،دھیمے دھیمے سروں کے شیدائی ہیں ۔خود بھی بڑے سریلے ہیں ،ایسے ایسے سُر لگاتے ہیں کہ روایتی محاورے کے مطابق پانیوں میں آگ لگ جاتی ہے ۔لباس پہنے کی ڈھنگ بھی انہیں آتا ہے رنگوں کے تناسب کو بھی سمجھتے ہیں اور زیادہ بھاری بھرکم ملبوسات بھی نہیں پہنتے ۔لوگوں کا کیا ہے وہ تو کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جسم کو ڈھانپنے کیلئے سارے کراچی کو ننگا کردیا ہے ۔وہ کھانا بھی بڑے ذوق و شوق سے بناتے ہیں۔سنا ہے بڑے بڑے شیف ان کے سامنے پیاز کاٹنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔پچھلے دس برس، لندن کے کچن میں ان کے بنانے ہوئے کھانوں سے اٹھتی ہوئی خوشبوئیں اسلام آباد میں صدر ہاؤس کی ڈائینگ ٹیبل تک محسوس کی جاتی رہی ہیں ۔مجھے لگتا ہے الطاف حسین کے خلاف یہ سازش بھی اسی عالمی سازش کا حصہ ہے جس کی خبر صدر زداری نے انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے دی تھی کہ ہم انتخابات میں عالمی اداروں کی سازش کا شکار ہوئے ہیں
میں نے کل ایک انگریز دوست سے پوچھا ”یار یہ تمہارے جی ایٹ کے ممالک نے ہمارے الطاف حسین کے خلاف سازشیں کیوں شروع کردی ہیں ہم لوگ ان سازشوں کی وجہ سے بہت خوف زدہ ہیں ۔ کراچی میں لاکھوں لوگ تمہاری وجہ سے ”یاسلامُ “ کا مسلسل ورد کر رہے ہیں ۔یعنی الطاف حسین کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں ۔آخر بیچارے نے تمہارا نقصان کیا گیا ہے۔تم لوگوں نے منی لانڈرنگ کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف کیس بنا لیا ہے۔منی لانڈرنگ کا کیس تو تم لوگ تب بناتے جب منی لانڈرنگ کا رخ پاکستان کی سمت ہوتا۔اس کیس میں منی تو پاکستان سے برطانیہ آئی ہے۔برطانیہ کا فائدہ ہی فائدہ ہوا ہے۔پھر تم نے انہیں ان کے ایک عزیز دوست کے قتل کے معاملہ میں مشکوک قرار دے رکھا ہے۔حالانکہ وہ ریاست ہائے متحدہ قومی موومنٹ کا اندرونی معاملہ ہے ۔بند کردویار یہ عالمی سازش“بدقسمتی سے میرا وہ انگریز دوست الطاف حسین کوجانتاہی نہیں تھااس نے میری ساری گفتگو کو لایعنی قرار دیتے ہوئے کہاکہ”برطانیہ میں قتل کا کیس تو اتنا زیادہ سنگین نہیں مگرمنی لانڈرنگ زیادہ سنگین جرم ہے “
بیچارے الطاف حسین کے سینے پر یہ تمغہ بھی سجادیا گیا ہے کہ انہوں نے ٹونی بلیئر کو ایک خط لکھا تھا جس میںآ ئی ایس آئی کے خلاف ایسی معلومات فراہم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی جو ثابت کردیں گی کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے پسِ منظر میں آئی ایس آئی کامنظرنامہ ہے ۔اس الزام پر بھی آنکھ والوں کے بہت سے تحفظات ہیں۔ایک تو یہ کہ انہیں ایسے گوہرِ گراں مایہ کی فراہمی کیلئے ٹونی بلیئر کوخط لکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔وہ خود ایک عالمی شخصیت ہیں اور ایسے موتی خریدنے والے عالمی اداروں کے ساتھ ان کے برسوں پرانے روابط چلے آرہے ہیں۔ ٹونی بلیئرجیسے عوامی آدمی کوکسی ایسی ڈیل شامل کرنے کی توقع الطاف حسین سے نہیں کی جا سکتی ۔پھر انہیں یہ بھی معلوم ہے برطانوی وزیر اعظم تک پہنچنے کیلئے ہر خط کوکئی غیر اہم لوگوں سے بھی گزرپڑتا ہے۔سو وہ خفیہ نہیں رہ سکتا۔دوسری بات یہ ہے کہ جب ٹونی بلیئر وزیراعظم تھا اس وقت پرویز مشرف پاکستان کے صدر ہوا کرتے تھے۔وہ پرویز مشرف جن کے بارے میں ریاست ہائے متحدہ قومی موومنٹ کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اسلام آباد سیکٹر کے انچارج ہیں سواُن کے دورِ حکومت میں الطاف بھائی بھلا کیسے آئی ایس آئی کے خلاف ہو سکتے تھے۔
الطاف حسین کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ پربے شمار تبصرے پڑھنے اور سننے کو ملے۔ان میں سے ایک تبصرہ مجھے بہت پسند آیاکسی شوخ نے فیس بک کی محراب پر لکھا تھا کہ ”بی بی سی نے پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے1965میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی سپاہی اس وقت لاہور جمخانہ میں صبح کا ناشتہ کر رہے ہیں جسے الحمدللہ پاکستان کے سپاہیوں نے غلط ثابت کر دیا تھا۔اب دوسری مرتبہ پاکستان دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے بی بی سی نے الطاف بھائی پربیہودہ الزامات عائد کئے ہیں جنہیں انشااللہ متحدہ کے سپاہی غلط ثابت کر دیں گے۔“میری دعائیں متحدہ کے سپاہیوں کے ساتھ ہیں۔متحدہ کے سپاہیوں سے اس سلسلے میں درخواست ہے کہ وہ ”یا سلامُ “ کے ساتھ ساتھ ” یاحفیظُ “ بھی شروع کردیں ۔زیادہ بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
شاعر ہوتے بہت نرم دل ہیں جیسے۔۔ الطاف بھائی ۔سنا آج کل”برے دنوں میں بوری کی یاد“جیسی نظمیں صفحہ ء ہستی پررقم کررہے ہیں۔زمین ان کے کئی دیوانوں کو اپنے سینے میں محفوظ کر چکی ہے ۔وقت بس آخری دیوان کے انتظار میں ہے ۔