اسلام آباد( نمائندہ جنگ )عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سےسینیٹ انتخابات کیلئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر صدارتی ریفرنس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایک چار(چار ججز کا اتفاق، ایک کا اختلاف) کے تناسب سے اپنی رائے میں قراردیاہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تابع ہیں اسلئے سینٹ کے انتخابات آئین کے مطابق منعقد ہونگے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ ،صاف ،شفاف اور قانون کے مطابق بنائے جو کرپٹ پریکٹس سے پاک ہوں،الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں بدعنوانی کے سدباب کیلئے دستیاب وسائل سمیت ہر قسم کی جدیدٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے، آئین کے مطابق تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں انکی معاونت کے پابند ہیں جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ صدرمملکت نے جس معاملے سے متعلق رائے طلب کی ہے وہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت قابل غور ہی نہیں ہے، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحی آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے یکم مارچ 2021کو 8صفحات پر مشتمل مختصر رائے /فیصلہ جاری کیا تھا ،عدالت نے منگل کے روز 72 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جسے چیف جسٹس گلزار احمد نے قلمبند کیا ہے ،عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیاہے کہ اس ریفرنس کے ذریعے صدر مملکت کی جانب سے سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالت سے رائے مانگی گئی ہے ،آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ایڈوائزری دائرہ اختیار حاصل ہے،آرٹیکل 186 کے تحت صدر مملکت کسی بھی آئینی و قانونی معاملے پر سپریم کورٹ سے قانونی رائے لے سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ ہونگے، آرٹیکل 226 کی قانونی طور پر کوئی اور تشریح نہیں ہو سکتی ،الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 122/6 کے مطابق سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے منعقد ہونگے،سینیٹ انتخابات قانون کے بجائے آئین کے تحت ہونگے،سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق پارلیمنٹ کو بدعنوانی اور دیگر جرائم سے متعلق قانون سازی کا اختیار ہے، تاہم آرٹیکل 220 پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کے اختیارات واپس لینے سے متعلق قانون بنانے سے روکتا ہے،آرٹیکل 220 کے مطابق وفاقی اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی معاونت کی پابند ہیں، الیکشن کمیشن کو صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے اختیارات حاصل ہیں ، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کیخلاف کارروائی کرے۔