(دوسری اور آخری قسط)
1955ءمیں جب اُس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے دوسری شادی کی تو خواتین نے اس کے خلاف احتجاجی مہم شروع کی ۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کی قیادت میں یونائیٹڈ فرنٹ فار ویمن رائٹس UFWRبنایا گیا۔ اس کے اور اپوا کے دبائو کے نتیجے میں حکومت نے سپریم کوٹ کے چیف جسٹس رشید صاحب کی سربراہی میں شادی، طلاق، کفالت اور بچوں کی کسٹڈی کے مروجہ قوانین کا جائزہ لینے اور ان میں تبدیلی کی تجاویز دینے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ۔ رشید کمیشن نے 1956ءمیں اپنی رپورٹ مکمل کی ،جس میں مولانا احتشام ا لحق تھانوی کا تفصیلی اختلافی نوٹ شامل تھا۔مذہبی عناصر کے مسلسل دبائو کی وجہ سے اس رپورٹ کو کبھی عام نہیں کیا گیالیکن پانچ سال بعد یہی رپورٹ مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی 1961ءکی بنیاد بنی۔
اس دور کی ایک اور اہم کامیابی1956ءکے آئین میں عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے عورتوں کے حق رائے دہی کا اصول تھا ، یوں عورتوں کو دہرے ووٹ کا حق حاصل ہوا۔ایک ووٹ جنرل سیٹ کے لئے اور ایک عورتوں کی مخصوص نشست کے لئے۔1962ءکے آئین میں اس حق کو ختم کر دیا گیا۔ بد قسمتی سے عورتوں کے بالواسطہ انتخاب کا طریقہ 1973ءکے آئین میں بھی برقرار رکھا گیا، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ آئین ساز کمیٹی میں دو عورتیں بیگم اشرف عباسی اور بیگم نسیم جہاں بھی شامل تھیں ،جن کی کوششوں کے نتیجے میں 1973ءکے آئین میں زیادہ صنفی مساوات نظر آتی ہے۔اور قانون کے سامنے سارے شہریوں کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ لوکل باڈیز میں بھی عورتوں کے لئے مخصوص نشستوں کی ضمانت دی گئی ۔قومی زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کی شمولیت کی یقین دہانی کرائی گئی۔
عورتوں کے حوالے سے ایوب خان کے دور کو دو باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ ایک تو عائلی قوانین، دوسرے فاطمہ جناح کا ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کہا جاتا تھا ۔1965ءکے صدارتی انتخابات کے وقت ان کی عمر 71 سال تھی ۔ تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کے بعد وہ سیاست سے الگ تھلگ رہی تھیں، مگر جمہوری اقدار کی سر بلندی کی خاطر انہوں نے حزب اختلاف کے سیاست دانوں کی درخواست مان لی اور ایک آمر کے مقابلے کے لئے نکل پڑیں۔
ان کے انتخابی جلسوں میں حبیب جالب کی نظمیں لوگوں کا دل گرما دیتی تھیں۔یہ اور بات کہ ایوب خان نے ریاستی مشینری کی طاقت اور دیگر ہتھکنڈوں سے ان کو ہرا دیا۔ لیکن عوام کے دل 71 سالہ پُر وقار خاتون کے ساتھ دھڑکتے تھے۔کراچی اور مشرقی پاکستان میں طلبہ مادر ملت کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اسی طرح وکلا کی اکثریت نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن نے تو ایوب خان کے خلاف قرارداد بھی منظور کی۔ ایک افسوس ناک بات جس کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوہ اور اپوا کی بانی بیگم رعنا لیاقت علی خان اور بیگم فدا حسین نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کا ساتھ دیا تھا۔ بعد ازاں ایوب خان کو عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
زیڈ اے بھٹو کا دور پاکستانی عورتوں کے لئے ترقی کا دور تھا، پیپلز پارٹی نے عورتوں کے سیاست میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی۔ پارٹی کی بانی رکن بیگم نسیم جہا ں نے تعلیم یافتہ خواتین کو متحرک کیا کہ وہ گھر گھر جا کر پارٹی کا پیغام پہنچائیں۔ پارٹی نے عورتوں کا ایک ونگ بھی بنایا،جس سے عورتوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔1972ءمیں ساری سرکاری ملازمتوں کے دروازے عورتوں کے لئے کھول دئے گئے ۔ پہلی مرتبہ خواتین کو یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر،صوبوں کی گورنر اور قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بننے کا موقع ملا۔ پہلی مرتبہ وزارت خارجہ میں عورتوں کو ملازمتوں کے مواقع ملے۔
اس مضمون میں آگے چل کر ہم مختلف شعبوں میں پاکستانی عورتوں کے کردار کے بارے میں بات کریں گے لیکن 2020، 2021میں عورتوں پر تشدد کے اتنے ہولناک واقعات رونما ہوئے کہ ہمیں سب سے پہلے اسی موضوع پر بات کرنی پڑے گی۔ ابھی ہم سندھ میں چار بچوں کی پڑھی لکھی خوب صورت ماں عینی کے قتل کا سوگ منا رہے تھے کہ اسلام آباد سے نور مقدم کے بہیمانہ قتل جس میں اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیاکی اطلاع نے ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔
اس دوران تیس سالہ نسیم بی بی کو ملزم واجد نے ایک ویران جگہ بلا کے چاقو کے وار کر کے اس کے بچے اور اس کو قتل کر دیا۔اس سے پہلے صائمہ اپنے شوہر کی گولیوں کا نشانہ بن چکی تھی۔ شہداد کوٹ میں انیس سالہ نذیراں اپنے دیور کے ہاتھوں قتل ہو چکی تھی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بھکارن کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کا ریپ کرنے سے پہلے اس کے معصوم بچے پر چاقو کے وار کئے گئے اور اسے بھی زخمی کیا گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئی۔ان پے در پے واقعات نے پوری قوم کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔ کیا ریاست اور سماج عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں؟ یہ سارے واقعات چندماہ کے اندرپیش آئے ہیں۔
خواتین محاذ عمل کے مطابق ’’ عورت چاہے شہر میں رہتی ہو یا گائوں میں ، گھر کے اندر ہو یا باہر، برقع پہنتی ہو یا بغیر برقع ہو، خاندان والوں، شوہروں ، دوستوں یا اجنبیوں کے ہاتھوں تشد کا نشانہ بنتی ہے یا قتل ہوتی ہے۔ ‘‘عام طور پر عورت اپنے قریبی لوگوں کے ہاتھوں ہی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ قریبی لوگوں کے حملے اجنبیوں کے مقابلے میں زیادہ خطر ناک ثابت ہوتے ہیں۔ دیگر مردوں کے مقابلے میں شوہر یا گھر کے مردوں کے ہاتھوں عورت کی ہلاکت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ قتل کے علاوہ عورتیں جنسی حملوں اور ریپ کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔
عورتوں پر تشدد کی ابتدا تو پارٹیشن کے وقت ہی ہو گئی تھی۔عورتیں اغوا بھی ہوئیں اور ان کا ریپ بھی ہوا۔ 1971ءمیں جب مشرقی بازو الگ ہوا تو پھر یہی کہانی دہرائی گئی۔2000 ءکے عشرے میں افغانستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان کے لئے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہوئے وہیں عورتوں پر تشدد میں بھی اضافہ ہوا۔ شمالی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم پر برا اثر پڑا، لڑکیوں کے اسکول تباہ کر دئیے گئے جن لڑکیوں نے اسکول جانے کی کوشش کی انہیں گولی مار دی گئی ، اس کی سب سے بڑی مثال ملالہ یوسف زئی کی ہے۔
قومی کمیشن برائے وقار نسوں کی سابقہ چیئر پرسن خاور ممتاز نے یو این ویمن کے تعاون سے 2020ءمیں پاکستان کی نوجوان لڑکیوں کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق پندرہ سے چوبیس سال کی نوجوان لڑکیوں میں سے اڑتالیس فی صدجب کہ لڑکوں میں سے سات فی صد تعلیم، روزگار یا تربیت حاصل نہیں کر پاتے۔ نوجوان لڑکیوں میں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ میں سے صرف تین فی صد زرعی زمین کی مالک ہیں اور صرف دو فی صد لڑکیوں کا اپنا مکان ہے۔ جہاں تک فیصلہ سازی اور خود مختاری کا تعلق ہے، چوبیس فی صد لڑکیاں اپنی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں خود فیصلہ کرتی ہیں۔
صرف ایک فی صد لڑکیاں اپنی شادی کا فیصلہ خود کرتی ہیں۔ سولہ فی صد لڑکیوں سے گھر والے شادی کے بارے میں مشاورت کرتے ہیں۔ایک چوتھائی لڑکیوں کو اپنا علاج کروانے کے لئے اجزت لینا پڑتی ہے۔ جب کہ 71 فی صد لڑکیاں اکیلے کلینک یا ہسپتال نہیں جانا چاہتیں۔ ایک تہائی سے کم لڑکیاں خوراک اور کپڑوں کی خریداری خود کر سکتی ہیں۔ انچاس فی صد شادی شدہ ملازمت پیشہ خواتین کی آمدنی پر گھر والوں کا کنٹرول ہوتا ہے۔ جب کہ صرف نو فی صد عورتوں کو اپنے شوہر کی کمائی کے بارے میں کوئی مشورہ دینے کا حق ملتا ہے۔29فی صد نوجوان شادی شدہ لڑکیوں کو شوہروں کی پابندیوں اور روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب کہ 44فی صد نوجوان شادی شدہ جوڑوں کی رائے میں بیویوں کی مار پیٹ میں کوئی حرج نہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2020ءمیں پندرہ فی صد لڑکیوں کوغیر مردوں کے ہاتھوں جسمانی تشدد اور چار فی صد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جب کہ چودہ فی صد خواتین کو شوہروں کے ہاتھوں جسمانی تشدد اور چار فی صد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ تشدد کا شکار ہونے والی صرف 23فی صد خواتین نے مدد طلب کی جب کہ سولہ فی صد نے صرف اپنی قریبی سہیلیوں اور گھر والوں کو بتایا، مگر کسی سے مدد نہیں مانگی۔ متاثرہ خواتین میں سے صرف تین فی صد نے پولیس، وکیل یا کسی اور ادارے سے رابطہ کیا۔
2020 ءکی آخری سہ ماہی میں بچیوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر اور گینگ ریپ کے واقعات نے ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ لاہور موٹر ہائی وے پر ایک خاتون کا اس کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ ہوا ، اس کے بعد کراچی میں ایک سات سالہ بچی زینب کو اغوا کر کے ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد کراچی کے جناح ہسپتال سے ایک عورت کو نوکری کا جھانسہ دے کر بچی سمیت کشمور لے جایا گیا۔ ماں کا گینگ ریپ ہوا اور پھر چار یا پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں بخشا گیا۔’’انکل نے میرے ساتھ یہ کیا‘‘ بچی کا یہ جملہ پوری قوم کے ضمیر پر تازیانہ بن کر برستا رہے گا لیکن قوم اس پولیس آفیسر کو بھی ہمیشہ یاد رکھے گی ،جس نے اس درندے کی گرفتاری کے لئے اپنی بیٹی کو مظلوم ماں کے ساتھ بھیجا۔
2020 ءمیں کووڈ 19کی وبا نے بھی قیامت ڈھا دی۔ نعیم مرزا کے بقول وبا کے باوجود عورتوں اور بچیوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ۔جنگوں اور زمانہ ء امن کی طرح وبا کے دوران بھی عورتوں اور بچیوں کو مارا پیٹاگیا، ریپ کیا گیا اور قتل کیا گیا۔ سیپ پی کے اور ایک این جی او کے پاکستان کے پچیس اضلاع اور گلگت بلتستان سے جمع کردہ اعدادو شمار اس تلخ حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں تو لوگوں نے وبا کے دوران اپنی بقاکی جنگ لڑی لیکن عورتیں تو صدیوں سے زندہ رہنے ، عزت اور مساوات کے ساتھ ہر طرح کے خوف سے آزاد رہ کرزندہ رہنے کی جدوجہدکررہی ہیں۔ہمارے سیاسی اور سماجی رہنمائوں، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماج سے پدر سری ذہنیت اور عورت دشمنی کا خاتمہ کریں ۔عورتوں پر تشدد کے مسئلے کو غیرت کے نام پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب کو مل کر ایک صحت مند اور خوشگوار سماج اور صنفی مساوات کے لئے کام کرنا چاہیے۔
گھریلو تشدد کا سامنا ہر کمیونٹی کے افراد کو بلا لحاظ عمر ، مذہب، صنف اور اقتصادی مرتبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ جذباتی زیادتی اور کنٹرول کرنے کا رویہ بھی شامل ہوتا ہے۔ گھریلو تشدد کا نتیجہ جسمانی چوٹ، نفسیاتی صدمے اور بسا اوقات موت کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ امرتیا سین کی ریسرچ کے مطابق پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم ہو جانے پر لڑکیوں کو اس دنیا میں آنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔
ہندوستانی این جی اوز کی متوازی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010ء میں 126 ملین لڑکیوں کو جنس معلوم ہو جانے پر اسقاط حمل کے ذریعے اس دنیا سے غائب کر دیا گیا۔ حیاتیاتی طور پر پیدائش کے وقت جنس کا تناسب102 سے 106 لڑکوں کے مقابلے میں100 لڑکیوں کا ہے۔ اگر لڑکیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ لڑکے پیدا ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ لڑکیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے( UNFPA)۔
جدید دنیا میں عورت پر ہونے والے مظالم کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے۔ظلم کے اسباب کا انقلابی اور ترقی پسند تجزیہ ہی تحریک نسواں کے کارکنوں کے لئے نقطہ ء آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک مزدور گھرانہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اور عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا بنیادی ذریعہ بھی۔ اس تجزئیے کا آغاز ہم ایک صدی قبل شائع ہونے والی فریڈرک اینگلز کی کتاب ’’ خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘سے کریں گے۔
اینگلز نے عورتوں کی غلامی کا تعلق نجی ملکیت اور طبقاتی معاشرے سے جوڑا تھا اور بتایا تھا کہ آزادی کے لئے ان اداروں کو ختم کرنا ضروری ہے لیکن علم ا لبشریات کی معلومات کے حوالے سے اس کتاب کی بہت سی باتیں درست ثابت نہیں ہوئیں۔اینگلز نے اس بات پر زور دیا تھا کہ صنعتی سرمایہ داری کے ابھرنے کا مطلب عورتوں کی ترقی تھا ،کیوںکہ اس کی وجہ سے وہ سماجی افرادی قوت میں شامل ہوئیں۔
گھریلو کاموں کو سماجیانے (Socialization)کے عمل کے ساتھ یہ آزادی کی پیشگی شرط تھی ۔لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں عورتیں دبی کچلی رہیں، کیوںکہ سماجی پیداوار کے عمل میں شامل ہونے کے باوجود انہیں گھریلو کام کاج کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا۔ اینگلز اور مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کہا تھا ’’کام والی جگہ پر عورتوں کے بڑھتے ہوئے استحصال کے ذریعے سرمایہ داری محنت کش گھرانے کو تباہ کر رہی ہے‘‘۔ مارکس کی طرح اینگلز بھی سرمایہ داری کی جلد موت کی توقع کر رہا تھا، اس لئے اس نے ان عوامل پر زیادہ توجہ نہیں دی جو خاندان کو زیادہ اہمیت دلانے کا باعث بنے۔
وہ مزدور گھرانے اور سرمایہ دار گھرانے میں امتیاز کرتا تھا۔ اس کی رائے میں مزدور گھرانے میں رشتوں کی بنیاد جائیداد اور وراثت پر نہیں ہوتی ، لیکن یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ خاندان کی بنیاد صرف جائیداد یا املاک پر ہی رکھی جا سکتی ہے، ایسا کہنا سرمایہ داری نظام میں محنت کش خاندان کے مخصوص اقتصادی کردار کو نظر انداز کرنا ہے۔
صنفی بنیاد پر ہونے والا تشددGBVاور عورتوں اور بچیوں پر ہونے والا تشدد VAWGایک عالمی وبا ہے، جس کا ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں شکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں 35فی صد عورتیں اپنے شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں سات فی صد عورتیں کسی غیر مرد کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔38فی صد عورتیں اپنے شریک حیات کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔
دو سو ملین عورتیں نسوانی ختنے کے ہولناک تجربے سے گزرتی ہیں،اس تشدد کے صرف عورتوں اور ان کے خاندانوں پر ہی تباہ کن اثرات مرتب نہیں ہوتے۔بلکہ سارے معاشرے کو اس کی اقتصادی اور سماجی قیمت چکانا پڑتی ہے۔عورتوں پر تشدد کے نتیجے میں کچھ ممالک کو اپنی قومی آمدنی کے 3.7 فی صد حصے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔اس مسئلے کو ابھی حل نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ا س کی اور زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔(ورلڈ بینک)
1993ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے اعلامیہ کے آرٹیکل ۱کے مطابق عورتوں پر تشدد سے مراد :’’ صنفی بنیاد پر کئے جانے والا تشدد کا ایسا فعل جس کے نتیجے میں عورت کو جسمانی، جنسی یا نفسیاتی نقصان یا تکلیف پہنچتی ہے یا پہنچ سکتی ہو۔ اس طرح کے افعال کی دھمکی دینا اور عور ت کے گھر سے باہر نکلنے کی آزادی کو محدود کرنا بھی عورت پر تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔آرٹیکل دو میں عورتوں پر تشدد کے تین حوالے بتائے گئے ہیں: خاندان کے اندرتشدد، کمیونٹی کی طرف سے تشدد اور ریاست کی طرف سے تشدد۔گھروں میں عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔جہیز نہ لانے پر تشدد کیا جاتا ہے۔
ریپ، نسوانی ختنے اور دیگر بہت سے رسوم و رواج جو عورت کے لئے نقصان دہ ہیں۔کمیونٹی میں عورتوں کو ریپ، جنسی زیادتی، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔معاشرے میں اختیار، اقتداراور طاقت کے غیر مساوی رشتوں کی وجہ سے عورتوں کو مزید کئی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ عورت کی جنسیت کو کنٹرول کرنے پر اصرار کرتا ہے اور خاندان کی غیرت اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری عورت پر ڈالتا ہے۔اعلامیہ کا آرٹیکل ۳ عورتوں کے لئے بہت سے مساوی حقوق پر زور دیتا ہے جن میں ٹارچر ، ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رہنے کا حق بھی شامل ہے۔