• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابنِ خلدون نے اقوام کے عروج و زوال میں جس عصبیت کا مقدمہ پیش کیا تھا اگر اُسے سچے عزم و ولولے کی نظر سے دیکھا جائے تو حکمرانی انہی کا حق ہے ’’جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘، خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے، اگر کچھ کر گزرنے کی سچی ہمت و لگن نہیں ہے تو چلتی پھرتی لاکھوں کروڑوں لاشوں کی بھی کیا اہمیت ہو گی۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’مجھے سزا کیلئے بھی نہیں قبول وہ آگ، کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکس و بیباک‘‘۔ 15اگست 2021کا دن افغانوں کی تاریخ میں کبھی نہ بھلایا جا سکے گا جب کابل میں ایسا پُرامن مگر خوف زدہ کر دینے والا انقلاب آیا جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن سے لے کر عام افغان شہری تک سب حیران و پریشان ہیں کہ کیا سے کیا ہو گیا، حتیٰ کہ خود طالبانی قیادت حیرت میں گم ہے کہ بغیر کسی مزاحمت کے انہیں یوں پورے افغانستان کا اقتدار مل گیا۔ اسے کرشمہکہیں یا طالبان کی ہمت کہیں یا اُن کی مخالف افغان حکومت کی بزدلی، جو امریکی بیساکھیوں پر کھڑی تھی اور بیساکھیاں ہٹتے ہی منہ کے بل گر پڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نامرادی کی اصل ذمہ دار امریکی انتظامیہ ہے جس نے دو دہائیوں کی طویل مدت میں اتنے بھاری اخراجات کرنے کے باوجود ایسا لاغر اور گھٹیا سیٹ اپ قائم کیا کہ ریت کی یہ دیوار وقت کا ایک طمانچہ سہنے کے قابل بھی نہ ہوئی۔ آپ کوئی بھی چیز ایجاد کرتے ہیں تو استعمال سے پہلے اس کی صلاحیت پرکھتے ہیں، یہاں آپ نے 88ارب ڈالر خرچ کرتے ہوئے تین لاکھ کی فوج تیار کی، اپنی امریکن فورسز کو ہٹاتے یا نکالتے ہوئے آپ نے اِس نام نہاد افغان فورس کی جانچ پرکھ کیا کی؟ آپ اپنا یہ ماڈرن جمہوری سیٹ اپ قائم کرتے ہوئے کن لوگوں کو اوپر لائے؟ کیا آپ کو نہیں معلوم تھا کہ جیسا دودھ یا کچی لسی تھی، ویسی ہی بالائی آنا تھی۔ آج آپ کس منہ سے کہہ ہے ہیں کہ افغان قوم کی تشکیل نوع اور افغانوں کی ذہنی آبیاری آپ کا مطمح نظر نہ تھی، اگر ایسی بات تھی تو پھر آپ لوگوں نے امریکی عوام کے خون پسینے کی کمائی کے ٹریلینز ڈالر آگ کی اس بھٹی میں کیوں جھونکے؟ اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں تین ہزار بےگناہ امریکی مرے تھے تو آپ نے کس خوشی میں مزید اڑھائی ہزار امریکی نوجوانوں کی جانیں افغان سرزمین میں گنوائیں اور ان کی لاشیں اٹھائیں۔ اگر آپ نے اپنے اس مشن یا انسانی کاز کو منطقی انجام تک نہیں پہنچانا تھا اور آپ کا مدعا صرف اتنا تھا کہ القاعدہ یا داعش یہاں سے امریکہ پر حملہ آور نہ ہو سکیں تو پھر مکھیاں مارنے کیلئے اتنی ہیوی توپیں چلانے کی ضرورت کیا تھی؟ درویش نے 20برس قبل اِنہی کالموں میں یہ تجویز دی تھی کہ امریکہ اپنی فورسز افغانستان کی جلتی سرزمین پر ہرگز نہ اتارے، وہ اپنے ٹارگٹس کو محدود رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فضائی حملوں پر اکتفا کرے مگر آپ تو افغانوں کی کایا پلٹنے آئے تھے، انہیں تہذیبی بلندیوں پر لے جانے کے داعی تھے۔ اسی لئے تو آئین سازی سے لے کر جمہوری سیٹ اپ کے قیام تک اور اندرونی و بیرونی تحفظ و سلامتی کیلئے 3 لاکھ افرادپر مشتمل افغان فورسز تک کیلئے آپ نے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ اس کے بعد ذرا حوصلے سے کام لیتے، جنیوئن قیادت کو بعض اوقات وسیع تر قومی و انسانی مفاد میں غیرپاپولر یا تلخ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ مانا کہ امریکی عوام پرائی آگ میں اپنے بچوں اور ڈالروں کو نہیں جلانا چاہتے تھے مگر ایسا کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ چلیں ٹرمپ تو سستی شہرت کا بھوکا اور ہلکی ذہنیت کا مسخرہ تھا مگر ڈیمو کریٹس سے تو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ وہ سستی پاپولریٹی کیلئے اتنے بڑے امریکی و انسانی کاز سے ایسی شتابی میں آنکھیں پھیر لیتے۔ یہ درست ہے کہ امریکی عوام کب تک سنگلاخ پہاڑوں کا بوجھ اٹھاتے مگر بوجھ اتارنے کا بھی کوئی اسلوب ہوتا ہے۔

آپ نے قطر میں امریکن فورسز کے انخلاکی خاطر طالبان سے جس طرح مذاکرات کئے اور خود اپنے قائم کردہ جمہوری افغان سیٹ اپ کو کلی طور پر نظر انداز کیا، درحقیقت یہ بذاتِ خود طالبان کی جیت کا اعلان تھا۔ پاکستان کا یہ کہنا درست تھا کہ آپ لوگوں نے ہمیں بھی اعتماد میں نہ لیا، جو غریب بزدل چوہوں کی طرح دبکتے اور چھپتے ہوئے اندھیروں میں حملے کرتے تھے آپ نے عین نصف النہار انہیں کاندھوں پر اٹھا لیا اس کے بعد وہ کس کی سنتے؟ انہوں نے آپے سے باہر ہونا ہی تھا، اشرف غنی میں کچھ بھی غیرت ہوتی تو اسی دن مستعفی ہو جاتے۔ آپ لوگوں نے امریکی عوام میں سستی شہرت کیلئے افغان قوم کیا، خود اپنا بھی بھرم نہیں رہنے دیا۔ اب امریکی عوام کو یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ 20سال کے اس گناہِ بےلذت میں ہمارے بچوں کے خون اور اتنے بھاری معاشی بوجھ کا حساب دو۔ کرزئی، غنی، عبداللہ یا حکمت جیسے جن دانائوں کو آپ نے اوپر بٹھایا تھا اور 3لاکھ کی جو فورس جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ آپ نے تیار کی تھی، آج دنیا ان کاغذی شیروں کی کارکردگی پر حیرت زدہ ہے۔ پینٹاگون کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’ہم رہنمائی، تربیت اور وسائل فراہم کر سکتے ہیں لیکن جنگ کیلئے جذبہ خرید کر نہیں دے سکتے‘‘۔ آپ بھی درست کہتے ہیں کہ ’’اگر افغان فوج اپنے لئے لڑنے کو تیار نہیں ہے تو امریکی اس جنگ کیلئے اپنی جانیں کیوں دیں‘‘۔ یہ حقیقت دنیا بھر میں سوچنے کے لائق ہے کہ خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا جو خود اپنے لئے کچھ نہیں کرتے، ’’تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہےازل سے، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘، آج بہت سے لوگ یہ توجیہ پیش کر رہے ہیں کہ خطے کی بدلی صورتحال میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ 20برس قبل ان کی جو بھی سوچ تھی۔ آج اس ایشیائی خطے میں ان کیلئے اسلامی یا طالبانی دہشت سے بڑھ کر اصل چیلنج چین کی امڈتی طاقت اور خطے میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ پُرامن و مستحکم افغانستان کے بالمقابل متشدد اور بھڑکتا ہوا طالبانی افغانستان چین اور اس کے دیگر ہمنوائوں کیلئے زیادہ سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے جبکہ امریکہ کو اس سے اب ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ ( جاری ہے)

تازہ ترین