• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو نعرہ عوام کو دلکش لگے، وہ اہم ہوتا ہے اور ضرورت بھی۔ اُس نعرے کو آگے جاکر سیاسی یا کھوکھلا بنا لینا پھر قیادت پر منحصر ہوتا ہے۔ عوامی اُمنگوں کی ترجمانی ہی قیادت کا حسن ہوتا ہے۔ قیادت ہی نہیں عوام بھی اپنے پسِ منظر میں کسی کلچر اور تہذیب سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہر بڑی ریاست اپنے اندر یونٹس سمیٹے ہوتی ہے جن کے اپنے مخصوص چیلنجز، اہداف اور خواہشات ہوتی ہیں جنہیں یکسر فراموش کرنا اکثر اوقات حقوقِ انسانی کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

اِن فرائض اور حقوق کو بہرحال اخلاقی و قانونی اور آئینی گزرگاہوں اور منزلوں کی مسافتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے تب جاکر ایک متوازن سوسائٹی وجود پاتی ہے۔ ورنہ تو جنگل کے قانون کا کسی بھی معاشرے کو دبوچنا اور نوچنا مشکل ہی کتنا ہے؟ عہدِ حاضر میں بازگشت ہے کہ بہت سے کاموں کی ابتدا کے بعد وقتاً فوقتاً جائزہ اور آئینی ترامیم کو عملی جامہ پہنانا بہت ضروری ہے ورنہ ریاضتیں اور کاوشیں بےوقعت ہو جاتی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں ورنہ پچھلے چار عشروں کی سہمی سہمی رفتار میں فاصلوں کو بڑھتے ہی دیکھا ہے، منزلوں کو قریب نہیں۔ اصلاحات کا ثمر سمیٹنا ہو تو مطلوبہ اہداف کا مقررہ وقت میں حصول لازم ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پرائمری کلاسز کیلئے سنگل نیشنل کریکولم (SNC) کا رسمی طور سے افتتاح کردیا۔ مانا کہ پرانی تمنا تھی اور ہو سکتا ہے ریاست کو ضرورت بھی ہو، فی الحال اِس پر بھی زور نہیں کہ آیا یہ حالات ایسی ہی کسی فوقیت کے منتظر تھے یا کرنے کے کام یا فوقیت کی حسرت کچھ اور بھی ہے تاہم ایک بات اور خدشہ زور زور سے دستک دے رہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن میں اصلاحات کے نام پر جو کام پرویز مشرف نے شروع کیا، اُس کی تکمیل آج 2021تک کتنی ہو گئی؟ 20برس میں ہمارے پاس کالجوں میں بی ایس کو پڑھانے والے اساتذہ دستیاب نہیں ہیں۔ ہم نے برطانوی نظام سے جان تو چھڑا لی مگر امریکی نظام میں گردن دے دی، یہ بھی نہ سوچا کہ یہ سوئچ اوور کتنا مفید ہوگا اور کب تک تکمیل کی منزلیں چھوئے گا؟ اس خدشے کو بالائے طاق رکھا کہ اعلیٰ تعلیم کی گردن زدنی بھی تو ہو سکتی ہے۔ اِس نعرے میں دلربائی تو بہت تھی کہ نالج بیسڈ اکانومی ہوگی، یہ نہ سوچا کہ امریکہ میں یونیورسٹیوں کا انڈسٹریل لنک ہے، انڈسٹری میں ایمپلائمنٹ کے کھلے باب چشم ما روشن دل ما شاد کہنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور پاکستان میں سرکاری نوکری ہی کو مقدم جانا اور اسے ہی انڈسٹری سمجھا جاتا ہے۔ چلئے ہو گیا شروع بی ایس (BS)، پورے پاکستان میں سے کوئی ماڈل کالج ہی بتا دیجئے جہاں بی ایس کو پڑھانے والے موجود ہوں؟ کالجوں میں لیکچرار سے پروفیسر بننے کیلئے کسی قسم کی تربیت یا تعلیم میں اضافے کا انتظار نہیں کیا جاتا، کوئی اسکلز نہیں، نوکری کی مدت میں اضافہ ہی ترقی کی ضمانت ہے۔ جو بھی ہے، ہم وزیراعظم کے ’’عزم‘‘ کے سنگ کھڑے ہیں اور سنگل نیشنل کریکولم کی کامیابی و ترقی اور اصلاح کے فلک شگاف نعروں کیلئے بھی تیار ہیں مگر کوئی یہ سمجھا دے کہ 18ویں ترمیم یہ کچھ مرکز کو کرنے کی اجازت دیتی ہے یا یونٹس اور سب یونٹس اپنے کلچر، ضرورت اور زبان و بیان کے مطابق بھی کچھ کر سکتے ہیں؟ ہیلتھ اور تعلیم تو صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں کی خود مختاری کی بات کون کون نہیں کرتا رہا۔ چلئے اِس میں بھی کوئی حکمت ہی ہوگی یا سیاسی حکمت عملی لیکن اب یہ ضرور دیکھ لیجئے گا کہ کتابیں کب تک مہیا ہوں گی اور عملی جامہ کب تک پہنایا جا سکے گا اور اشرافیہ مان لے گا؟ جان کی امان کی صورت میں اتنا عرض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا اس پر متفق ہے کہ ابتدائی رٹے سے جان چھڑانے کیلئے مادری و مقامی زبان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

یہ بات بھی من و عن مان لی کہ حکومت نے کمال کردیا مگر وہ جو ایچ ای سی کا جمال گزشتہ 4برسوں سے صفِ ماتم بچھائے بیٹھا ہے وہ تو قبلہ شفقت محمود کی پہلی ذمہ داری تھی، ایچ ای سی کا تو زنجیری عمل ہی ہوا کہ کبھی بڑی کرسی گھومی ہوئی تو کبھی ایڈہاک ازم کی جدید شکل، کبھی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اپنے مقام پر نہیں تو کبھی ہائیر ایجوکیشن۔ لگتا ہے شکیل بدایونی نے اسی حالت زار ہی کیلئے یہ کہا ہو جیسے:

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

وزیراعظم تعلیمی محبت میں قبلہ بزدار سے پوچھئے کہ راجہ یاسر (ہائیر ایجوکیشن)، مراد راس (اسکول ایجوکیشن) اور انصر مجید جیسے وزرا سے تعصب ترک کیوں نہیں کردیتے؟نون لیگ ہو پیپلز پارٹی یا تحریکِ انصاف، راستے جتنے بھی بدلتے رہتے منزل ایک ہی ہونی چاہئے تھی۔ یہاں قصور صرف حکومتوں اور بیوروکریسی کا نہیں تعلیم کو بےشمار نقصان خود ماہرینِ تعلیم نے بھی پہنچایا ہے۔ شاید ہی کوئی یونیورسٹی ہو جہاں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نہ ہو، ہر جگہ یہ ماہرینِ تعلیم اپنے سویٹ ہارٹس، بیوی، بیٹی یا بھانجے و بھتیجے کیلئے سیٹ پیدا کرنے میں بانجھ ثابت نہیں ہوئے تاہم کوئی تھیسز ایسا قابلِ تحسین دے سکنے میں بانجھ ملیں گے کہ جسے دیکھ کر منسٹری کی روح چہک اٹھے یا بیوروکریسی مہک اٹھے کہ یہاں معیار، ضروریات اور اہداف کو سامنے رکھ کر پھر فلاں فلاں طرز عمل پر سیر حاصل بحث و تمحیص کے بعد ایک تعلیمی لائحہ عمل دیا گیا ہے جو میڈیا کیلئے بھی ڈارلنگ ہوا چاہتا ہے سو یہ محققین اور تحقیق بانجھ نہیں۔

زیادہ کچھ نہیں بس اتنا ہی کہ جمہوریت و جمہوریت پسند اور تعلیم و تعلیم پسند بھی بانجھ نہ ہوں، رٹا لگانے کے بجائے سوال اٹھانے کی زرخیزی سب سے اہم نظام ہے جاناں! ورنہ ہم نے وہ تعلیمی لیڈر بھی دیکھے جو ایک دن یونیورسٹیوں کے یکساں ایکٹ کے خواہاں تھے اور اگلے ہی دن وائس چانسلرز کے پیار اور پوجا میں پاگل! کریکولم سونے کا ہو یا چاندی کا جب تک یہ اسٹوڈنٹ کو درس گاہ کی کشش سے نہیں جوڑتا، بےرنگ ہی ہے اور زنگ ہی ہے۔ اور یقین جانئے تعلیمی معجزہ یہی ہے کہ تعلیم اُٹھے ہوئے سوالات کے جوابات کی تلاش ہی کے سبب زندہ ہے! باقی آپ کی مرضی مگر خدارا دلکش نعروں کو کھوکھلا ہونے سے بچا لیجئے!

تازہ ترین