• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی فوج کے انخلا کے بعد جس سرعت سے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، اُس پر پوری دنیا حیران و پریشان ہے۔ سب سے زیادہ تنقید امریکہ پر ہو رہی ہے جس نے کھربوں ڈالر لگادئیے مگر افغانستان میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کر سکا۔ توقع کی جارہی تھی کہ افغان نیشنل آرمی اعلیٰ تربیت اور جدید اسلحے کے ساتھ طالبان کا مقابلہ کرے گی مگر وہ ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں دوحہ امن معاہدے اور امریکی فوج کی واپسی کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی افغان حکومت اور فوج میں بددلی پیدا ہو گئی۔ افغان فوجی کمانڈرز اور وار لارڈز اپنی جان اور دولت بچانے کے لئے محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے لگے اور بعض نے طالبان کے ساتھ خفیہ معاہدے کر لئے۔ عام افغان فوجی جو فوجی کمانڈروں اور حکمرانوں کی کرپشن اور بیرونی آقائوں کی غلامی سے بدظن ہو چکا تھا، غیریقینی مستقبل، ایئرسپورٹ اور سپلائی لائن کی بندش اور مزاحمت کی صورت میں فاتح طالبان کے انتقام کے ڈر سے ہتھیار پھینکنے لگا، یوں افغان آرمی چند دنوں میں ہی منظر سے غائب ہو گئی۔ ماضی کے برعکس طالبان بہتر حکمت عملی کے ساتھ کابل سمیت بڑے شہروں میں داخل ہوئے۔ انہوں نے افغان فوجیوں، سرکاری ملازمین اور شہریوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اور بلاوجہ تشدد و خون خرابے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے بیرونی افواج، سفارت کاروں اور بیرونی اداروں میں کام کرنے والوں کے ساتھ الجھے بغیر انہیں واپسی کے لئے وقت اور محفوظ راستہ دیا۔ آخری چند دنوں میں امریکی حکومت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ طالبان دارالحکومت کابل کے مضافات میں پہنچ چکے ہیں چنانچہ امریکی صدر جوبائیدن نے فوری طور پر چند ہزار امریکی فوجی کابل واپس بھیجے تاکہ کابل ایئرپورٹ پر ان کا کنٹرول رہے اور مغربی باشندوں کی روانگی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ شمالی افغانستان کے بڑے فوجی کمانڈر اور وار لارڈ عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور ہمسایہ ملک ازبکستان فرار ہو گئے یوں پہلی مرتبہ طالبان نے لڑے بغیر مزار شریف اور شمالی اتحاد کے اہم مراکز پر اپنا جھنڈا لہرا دیا۔ اُدھر ترکمانستان اور ایران سے ملحقہ صوبے ہرات میں کمانڈر اسماعیل خان اپنے ساتھیوں سمیت مزاحمت ترک کرکے ایران پہنچ گئے یوں قندھار کے بعد افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہرات بھی طالبان کے زیر تسلط آگیا۔ جلال آباد پر قبضے کے بعد طالبان کابل کی طرف روانہ ہوئے تو پہلی مرتبہ افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح کو احساس ہو گیا کہ اب افغان حکومت کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے چنانچہ وہ فوری طور پر کابل سے بیرون ملک روانہ ہو گئے۔

تاجک النسل سابق نائب صدر امراللہ صالح جو بھارتی ہدایات پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا ہے، تاجکستان فرار ہونے کے بعد صدارت کا دعویٰ کررہا ہے اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ہمراہ پنج شیر وادی سے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کررہا ہے جبکہ احمد شاہ مسعود کے دو بھائی ایک وفد کے ہمراہ آئندہ کی حکومت پر بات چیت کے لئے اسلام آبادآئے ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ انتقام اور ریفارم کے ایجنڈے کے ساتھ افغانستان داخل ہوا جہاں 20سال رہنے کے بعد اُس کا انتقام تو پورا ہو گیا مگر ایک لینڈ لاک ملک میں جہاں کی تہذیب و تمدن، روایات اور مذہبی اقدار بالکل مختلف تھیں، میں ریفارم لانے میں ناکام ہو گیا۔ واشنگٹن، نیویارک اور نیو دہلی کے کتابی دانشوروں اور مفکرین کے بجائے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پالیسی ساز ان امریکی ہیروز کے مشورے مانتے جنہوں نے ایک امریکی کی جان گنوائے بغیر دنیا کی سپرطاقت روس کو اسی سرزمین پر شکست سے دوچار کیا تو آج خطے کے حالات مختلف ہوتے۔

آج پوری دنیا کی نظریں طالبان اور افغانستان پر لگی ہیں، طالبان نے اب تک سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے انتقامی کارروائیوں سے گریز کیا ہے مگر انہیں اپنے رویہ میں مزید لچک پیدا کرنی ہوگی، خواتین اور بچوں کے حقوق کا خاص خیال رکھنا ہوگا، جو خاندان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا اپنے سفید جھنڈے کی لاج رکھنی ہوگی۔ طالبان پر اب ایک ملک اور کروڑوں عوام کی ذمہ داری ہے انہیں مختلف مکتب فکر کے لوگ جن کی شہرت اچھی ہو حکومت میں شامل کرنے چاہئیں، اچھی گورننس کے لئے قابل لوگ آگے لانا ہوں گے اور دنیا کے تمام ممالک خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے روابط رکھنا ہوں گے اور سب سے اہم بات کہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عہد کرنا ہوگا۔

(مضمون نگار سابق وزیراطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین