طارق علی خان بائیں بازو کے معروف دانشور ہیں جن کی زندگی لندن میں گزری، وطن کی یاد ستائے تو آجاتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کر کے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے ایک توانا اور زیرک دانشور کی زندگی بھر کی کاوشیں ان کی ذات کے حصار سے آگے نہ بڑھیں غالباً انہوں نے اس دیہاتی بچے کو نہیں دیکھا ہو گا جو گاؤں کے جوہڑ میں بھینس کی دم پکڑ کر تیرنا سیکھتا ہے انہوں نے اپنے وطن کی گھاس یا مٹی کو نہیں سونگھا ہو گا ورنہ وہ کبھی ساری زندگی باہر نہ گزارتے، یہ بھی مشاہدے میں نہیں آیا ہو گا کہ ہم نے کس طرح شہر کی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک بھوکے کی دل خراش بات سنی جو بھوک وافلاس سے تنگ آکر جلال میں کہتا ہے ”مجھے ایک وقت کا کھانا روزانہ کھلا دو تو میں دنیا کی ہر دوسری خواہش سے دستبردار ہو جاؤں گا اگر کوئی ایسا نہیں کر سکتا تو میں کسی حکمران کو مرچ مسالہ لگائے بغیر کھا جاؤں گا۔ میں اپنی پیاس بجھانے کیلئے دنیا کے سارے سمندر پی جاؤں گا۔“ یہ ایک پڑھا لکھا خوبصورت نوجوان تھا جو بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا بڑبڑاتا آسمان کو دیکھتا رہتا تھا لوگ اس کو پاگل سمجھتے تھے لیکن وہ کچھ عرصہ پہلے تک بہت ذہین نوجوان بھی سمجھا جاتا تھا لہٰذا انقلابی ہونے کے لئے اپنے وطن کی مٹی کی بو باس سے مانوس ہونا، اپنے لوگوں سے پیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے بہترین دماغ ملک کی ابتری دیکھ کر ایک عرصے سے باہر جانا پسند کرتے ہیں حالانکہ فلسطینی شاعر محمود درویش نے ایک نظم میں یہ پیغام دیا ہے کہ ”ہر وطن کی مٹی نے اپنے انقلابی بیٹے، بیٹیوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ تم جدوجہد کرو میں انقلاب میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ طارق علی پھر بھی ہمارے لئے محترم ہیں انہوں نے عالمی موضوعات پر نو کتابیں لکھی ہیں ان کے مضامین نامی گرامی مغربی اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں ان کی بات چیت وینزویلا کے انقلابی ہوگو شاویز سے گاہے بگاہے ہوتی رہتی تھی۔ بس ایسی ہی ایک ملاقات ہوگوشاویز کے انتقال سے پہلے طارق علی خان کی ہوئی اس ملاقات کے تاثرات انہوں نے کچھ یوں قلم کے سپرد کئے۔ ”ہوگو شاویز سے پوچھا کیا انہیں تھکن کا، ڈپریشن کا کبھی احساس ہوا؟“ اس کا جواب شاویز نے اثابت میں دیا اور کہا ”عنان حکومت سنبھالتے یا ریفرنڈم کے وقت محسوس نہیں ہوا بلکہ اس وقت ضرور محسوس ہوا جب تیل کی صنعت کے سامراج دوست بدعنوان ٹریڈ یونین کی ہڑتال جاری تھی کیونکہ اس سے ملک کے غریب طبقے پر منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان تھا“۔ ہوگو شاویز نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہاکہ ”ڈپریشن سے اس لئے بچا رہا کہ لوگوں سے بے پناہ محبت مجھے ملی اور نیک نامی بھی“۔ پھر ایک واقعہ طارق علی خان کو سناتے ہیں ”میں اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے جب گھٹن محسوس کرتا ہوں تو اکثر ایک گارڈ اور دو کامریڈوں کے ساتھ عوام سے ملنے نکل جاتا ہوں جس سے مشاہدے اور مجاہدے میں شاندار عوامل سیکھنے کو ملے۔ مثال دیتے ہوئے پھر گویا ہوئے ایک عورت نے قریب آکر کہا … شاویز میرے ہمراہ آؤ چنانچہ ہم اس کے ساتھ اس کے چھوٹے سے مکان میں داخل ہوئے اس عورت نے ہمیں بتایا … دیکھو ہم ایندھن کے طور پر کیا جلا رہے ہیں۔ اپنے پلنگ کا ایک حصہ … کل ہم اس کے پائے جلائیں گے، پرسوں میز پھر کرسیوں کی باری آئے گی … ہم اپنا گزارا کر لیں گے مگر تم کسی صورت کسی سے سمجھوتہ نہ کرنا“۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو پاکستان کے لیڈروں میں کم کم ہی پائی جاتی ہے کیونکہ تاریخ ساز لیڈر اس دنیا سے ناپید کردیئے گئے۔ یہ جاننا آج سیاسی کارکنوں کے لئے ضروری ہے کہ بڑا لیڈر تاریخ پیدا کرتی ہے اور پھر تاریخ کا پیدا کردہ لیڈر ہی تاریخ بناتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ جس دن آمر پیدا ہوتا ہے اس دن وہ مر جاتا ہے ”جس دن انقلابی لیڈر مرتا ہے وہ اس دن پیدا ہوتا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر تحریر ہے کہ عوام نے ہمیشہ تاریخ ساز لیڈر کا ساتھ دیا ہے۔ اگر کسی جبر کے سامنے وقتی طور پر عوام خاموش بھی رہیں اور کسی عیسیٰ نفس کو مصلوب ہوتے دیکھا تو اس عوام نے اپنے دل کے دزدیدہ گوشوں میں رکھا اسے کبھی نہیں بھولے لیکن سمجھوتہ کرنے والے لیڈر کبھی دلوں پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔ شاہراہ انقلاب پر ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے سچائی جمال ہے اور جمال خدا کو پسند ہے لیکن جس معاشرے میں سچائی اور دانش اجنبی ہو جائے وہ معاشرہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے ایسے معاشرے پر سعادت حسن منٹو نے خوبصورت ترین چند سطریں لکھیں ”اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے … میں تہذیب وتمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی … میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں ہے، درزیوں کا ہے“۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے معاشرے مجرمانہ ہیں کیونکہ یہاں غربت اور امارات کے فرق کے انتہائی دردناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہندوستان کے ادیب ہرش مندر نے ایک کتاب ”ایس ان دی بیلی“ پیٹ میں راکھ لکھی ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے ”جب گھر میں اناج ختم ہو جائے اور کام بھی نہ ملے تو پورا خاندان خوراک کی تلاش میں نکل پڑتا ہے وہ اپنے بانسوں اور جھاڑو کے ساتھ گاؤں کے زمیندار کے ان کھیتوں کا رخ کرتے ہیں جن کی فصل کٹائی اور صفائی ہو چکی ہوتی ہے وہ بچے کھچے غلّے کے بکھرے ہوئے دانوں کو جھاڑو اور تھال کے ذریعے تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کرتے ہیں جو فصل کی کٹائی، چھنائی اور صفائی کے بعد زمیندار کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ یہ دھان اورگندم کے دانے چوہے بھی ذخیرہ کرتے ہیں خاندان کے افراد پھر چوہوں کے زیرزمین بلوں کو کھرچتے ہیں اورذخیرہ کئے اناج کو اپنے تھیلے میں ڈال دیتے ہیں۔ بھوک کی شدید گرمیوں کے مہینے میں مویشی جو اناج ہضم نہیں کرپاتے ان کے گوہر سے دانوں کو چھان کر بھی وہ جمع کر لیتے ہیں“۔ اسی ملک میں دوسرا منظر یہ ہے کہ مکیش امبانی جیسا ارب پتی ایک ارب ڈالر کا محل بناتا ہے جہاں لوگوں کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنی جھونپڑی تک نہ بنا سکتے ہوں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظلم ہے جو دیکھتے تو سب ہیں لیکن محسوس کرنے والے بہت کم ہیں۔ ایسے مناظر پاکستان میں بھی عام ہیں۔ گندگی کے ڈھیر سے بچے بوڑھے بھوکی عورتیں پیٹ بھرنے کیلئے کچھ ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔ رانی پور سندھ میں ایک کانفرنس کے دوران لوگ جو ہڈیاں چبا چبا کر ادھر ادھر پھینکنے میں مشغول تھے بچیاں اور بچے ان کو چن کر کھا لیتے تھے خود امریکی سامراج کے صدر ہیری ٹرومین نے 1949ء میں تقریر میں کہا تھا کہ ”آدھی دنیا غربت کی انتہا کو پہنچ چکی ہے“۔ لیکن سرمایہ دار نظام میں قیمتوں اور منافع کو بڑھانے کے واسطے بہات میں قلت پیدا کرنے کیلئے ٹرومین کا ملک ہی گندم سمندر میں پھینک دیتا ہے تاکہ قلت سے قیمتوں میں اضافہ ہو اور منافع بڑھے۔ ہندوستان کے نوبل انعام یافتہ امرتا سین کہتے ہیں کہ ہندوستان کی جمہوریت نے اتنا تو کر دیا ہے کہ اتنی بڑی آبادی میں قحط کو روکے رکھا ہے البتہ بھوک موجود ہے۔“ امرتا سین جانتے ہیں لیکن سچ نہیں بولتے کہ جب غربت اور امارت کا بڑا فرق موجود ہو تو اشیائے خوردونوش، علاج معالجہ اور تعلیم سبھی کی تقسیم نامنصفانہ ہو جاتی ہے۔ منصفانہ نظام کے بغیر دنیا وحشی اور جرائم پیشہ ہو جائے گی، یہ سوچنا ضروری ہے۔