• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے واقعات پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں شہ سرخی بنے ہوئے ہیں، ہر ملک اپنے نظریے کے مطابق بیان بازی کررہا ہے۔ مغربی ممالک کو طالبان کی کامیابی بہت ناگوار گزری ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنا، حملہ کرنا وہ بھی ہزاروں کلومیٹر دور غلط تھا،بربریت تھی، ظلم تھا، صرف وہ وجوہات تلاش کررہے ہیں کہ وہ کیوں ناکام ہوگئے۔ تم تو 1400 برس بعد بھی جنگِ یرموک، جنگِ قادسیہ میں ذلّت آمیز شکست کی وجوہات سے بے بہرہ ہو۔ جس طرح ویت نام کے عوام نے پوری دنیا پر ثابت کردیا تھا‘ وہ لڑائی میں تو پسپا ہوسکتے تھے مگر جنگ جیتنا ان کی منزل تھی، انھوں نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی فرانس اور امریکہ کو مکمل شکست دی اور ملک سے نکال دیا۔ ویت نام کو چین اور روس کی پوری مدد حاصل تھی مگر پھر بھی منزل بہت دشوار تھی۔ لاتعداد قربانیوں اور برسوں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرکے انھوں نے آزادی حاصل کی، اب اپنے خطے میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر مشہور ہے۔

اپنی آزادی اور عزّت کی خاطر انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضرب المثل ہیں۔ بالکل اسی طرح اب افغان بھائیوں نے دو بڑی طاقتوں یعنی روس اور امریکہ کو شکست دے کر یہ ثابت کردیاہے کہ اگر ایمان دلوں میں ہو تو ﷲ تعالیٰ خود فتح مہیا کردیتا ہے۔ افغانوں کا سوائے ﷲ تعالیٰ اور خود کے کوئی مددگار نہ تھا۔ روسی اور اس کی پرانی کالونیاںاور مغربی ممالک ان کے جانی دشمن بنے بیٹھے تھے۔ لاتعداد افواج ،مہلک ہتھیار، الیکٹرانک آلات‘ جذبہ جہاد کے آگے برف کی طرح پگھل گئے۔ چند ہزار مجاہدین نے برسوں کی پروردہ اور غیرملکی اسلحہ سے لیس فوج کو چند دنوں میں بُری طرح شکست فاش دی اور وہ اب اپنا ملک خود چلانا چاہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ پچھلے تجربے کی روشنی میں وہ بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔

پوری دنیا ( طالبان مخالف) اپنی ذہنیت و اعتقاد کی روشنی میں طالبان پر الزامات لگا رہے ہیں اور دوسرے افغان بھائیوں کی بھی بے عزتی کرنا چاہ رہے ہیں۔ دیکھئے جب ملک پر ایک غاصب ڈکٹیٹر بیٹھ جائے اور خودغرض لوگ اس کا ساتھ دینے لگیں تو پھر عوام مجبور ہوجاتے ہیں اور ہر ایک کو اپنے پیٹ، اپنے خاندان کی بہتری اور زندگی کی فکر رہنے لگتی ہے۔ یہی حال پہلے ترکی میں تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ممالک اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بار بار انقلاب لاکر حکومت پر قبضہ کرکے امیر سے امیر ترین بنتے گئے۔ میں جب 1961میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گیا تو دیکھا کہ خوبصورت ترکش عورتیں وہاں فرش، ٹائلٹ دھونے پر مامورتھیں، مجھے بے حد دُکھ ہوتا تھا مگر وہ بے چاری مجبور تھیں، ملک میں ڈاکو محلات میں بیٹھے عیاشی کررہے تھے، عوام بھوکے مر رہے تھے اور عزّت بیچنے پر مجبور تھے۔ موجودہ صدر اردگان نے پہلی مرتبہ قوم کو وقار اور عزت دی۔ اس سے پہلے وزیر اعظم بلند ایجوت نے اس کی بنیاد ڈال دی تھی، ﷲ بخشے بے حد نفیس انسان تھے‘ میں ان سے 1978میں ملا تھا۔ یہی حال پچھلے چند برسوں سے افغانستان میں تھا۔ ایک بہادر، غیّور قوم کو چور، نااہل، حکمرانوں نے دنیا میں فقیر،مجرم بنا کر پیش کردیا اور عوام روٹی کے ٹکڑوں کو ترس گئے۔ ان لوگوں نے حکومت میں، فوج میں، نوکریاں کیں مگر حکومت کی حمایت یا مدد کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزّت، دو وقت کے کھانے کے لئے کی تھیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں افغان مہاجرین آئے، محنت کی اور عزت کی زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ ان کے مزاحمت نہ کرنے کی وجہ کمزوری یا بزدلی نہ تھی۔ وہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے یہاں ٹھہرے رہے اور وقت گزاری کرتے رہے مگر جوں ہی ان کے بہادر مجاہدین آئے اُنھوں نے ان پر ٹینک، گولیاں نہیں چلائیں۔ جو چند چور تھے وہ کروڑوں ڈالر لے کر فرار ہوگئے۔ ہمارے یہاں بھی یہ چیز عام رہی ہے۔ ہمارے لوگ کیسے مشرقی پاکستان سے بھاگے تھے۔

امریکی صدر اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حکومت میں موجود افغان بزدل تھے، ڈرپوک تھے۔ چند حکمران، خودغرض، لالچی ضرور بزدل ہوں گے، عوام نہیں۔ افغانوں کی تاریخ شجاعت سے بھری پڑی ہے۔ گویا ہم محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی کو کبھی بھول سکتے ہیں، کیا ہم سکھوں کاجو حشر اور انگریزوں کو جو سبق افغانوں نے پڑھایا تھا ، بھول سکتے ہیں۔

ایک ملک کی جدّوجہد میں 20سال کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر ایک انسان کی عمر میں 20سال بہت ہوتے ہیں۔ انھوں نے 20سال جنگ لڑ کے خود آزادی حاصل کی ہے ان کو آزادی کی قیمت کا اندازہ ہے۔ الجیریا کے قومی ہیرو احمد بن بیلا نے بھٹو صاحب کو دارالحکومت کے باہر قبرستان دکھایا تھا جہاںلاکھوں شہدا مدفن تھے اور کشمیر کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ آزادی قربانی سے ملتی ہے ، تازہ مثال ویتنام اور افغانستان ہے۔ دنیا کی ایٹمی قوتیں ان کے جذبہ جہاد کو مندمل نہ کرسکیں اور نہ ان کو ’’اسٹون ایج‘‘ کی دھمکی کا سن کر ڈر لگا۔ آج بھی سامنے کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی کو اب بھی غلط فہمی ہے کہ ہمیں ڈرا دھمکا کر من مانی کرلے گا تو کوشش کرلے، ہم تیار ہیں۔

ﷲ پاک افغان، پٹھان بھائیوں پر اپنا رحم و کرم قائم رکھے ان کی رہنمائی فرمائے اور اسے دنیائے اسلام کی ایک مثالی قوم اور مثالی ملک بنا دے۔ آمین۔ ثم آمین یا رب العالمین۔ ان سے ایک درخواست ہے کہ احکاماتِ اِلٰہی اور سنتِ رسولﷺ (خطبہ حجتہ الوداع) پر صدق دل سے عمل کریں۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین