یہ شاید مئی 1978کی بات ہے۔ لاہور کے علاقے گلبرگ میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ سر زد ہوا۔ ملک کی مایہ ناز فلم اسٹار شبنم کو چند اوباش نوجوانوں نے رات کے اندھیرے میں گھر میں گھس کر، اس کے خاوند اور بیٹے کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور قیمتی اشیا بھی لوٹ لیں مگر چونکہ مجرم بااثر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور متاثرہ بھی ایک ایکٹریس تھی، جن کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ تو ہوتی ہی ایسی ہیں، تمام بدکردار سزا سے صاف بچ گئے اور اسی معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ شبنم دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش جا بسیں۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا۔ 2008کی گرمیاں ماند پڑ رہی تھیں۔ شاید ستمبر کا مہینہ تھا۔ پنجاب کے ایک شہر میں ایک نکّے تھانیدار نے نوجوان خاتون کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اِس بےبس مگر باہمت خاتون نے حاکمِ اعلیٰ سے فریاد کی۔ اخباروں نے خبر چلا دی۔ حاکمِ اعلیٰ جلال میں آ گئے اور انکوائری کا حکم دے دیا۔ حساس اداروں نے تحقیق کرکے رپورٹ دی کہ متاثرہ عورت کال گرل تھی۔ نکے تھانیدار کو علم ہوا تو اُس کی رگِ مردانگی نے انگڑائی لی کہ اس کا تو کام ہی یہ ہے تو کیوں نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے جائیں لہٰذا اس سے یہ حرکت سر زد ہو گئی۔ حساس ادارے کی رپورٹ جہاں جہاں گئی ٹھنڈ پڑتی گئی کہ کوئی ایسا سنگین معاملہ نہیں، وہ تو تھی ہی ایسی۔ حاکمِ اعلیٰ کا جلال بھی جھاگ بن گیا کہ وہ تو تھی ہی کال گرل۔ دراصل زیادتی کرنے والا تو ایک تھا مگر اس جیسی سوچ رکھنے والے لاتعداد تھے جن میں حاکمِ اعلیٰ بھی شامل تھا۔ اصولاً تو نکا تھانیدار سخت ترین سزا کا مستحق تھا کیونکہ اُس نے محافظ ہوتے ہوئے ایک خاتون کی آبرو ریزی کی مگر معاملہ ٹھپ ہو گیا کیونکہ اس کی آبرو ہی نہ تھی۔ وہ تھی ہی ایسی۔
پچھلے سال کے ماہِ ستمبر کی بات ہے کہ سیالکوٹ موٹروے سے گوجرانوالہ کی جانب جاتے ہوئے ایک خاتون کی اجتماعی آبرو ریزی ہوئی تو بجائے اِس کے کہ کوتوالِ شہر اپنے اور اپنی نالائق ٹیم کی ناکامی پہ نادم و شرمسار ہوتا، متاثرہ عورت کو موردِ الزام ٹھہراتا رہا کہ وہ رات گئے اپنے ننھے بچوں کو لیکر سڑک پر کیوں نکلی؟ وہ تو تھی ہی ایسی!
اب ایک واقعہ امریکہ کا سن لیجئے تاکہ کافر اور اسلامی معاشرے کا موازنہ ہو جائے۔ 1992میں باکسنگ کے ورلڈ چیمپئن مائیک ٹائیسن کی گرل فرینڈ، ایک ماڈل، ڈیزری واشنگٹن نے اس پہ الزام لگایا کہ مائیک ٹائیسن نے اسے ریپ کیا ہے۔ ٹائیسن نے اپنے دفاع میں کہا کہ ڈیزری سے اس کا تعلق ایک مدت سے ہے اور وہ دونوں رضا مندی سے ہوٹل گئے اور وہاں رہے۔ جب اُن میں تلخ کلامی ہوئی تو ڈیزری ناراض ہو کر چلی گئی اور دھمکی دی کہ اسے بدتمیزی کا مزہ چکھائے گی۔ لہٰذا زبردستی کا الزام قطعاً بےبنیاد ہے۔ تمام شواہد موجود ہیں۔ جج نے اطمینان سے بات سن اور سمجھ کر ٹائیسن کو 10سال قید کی سزا سنا دی۔ جج نے کہا کہ چمپئن ہونے کے ناطے یہ رول ماڈل تھا۔ اس کے رویے سے لوگ بھی عورتوں سے اس طرح پیش آئیں گے۔ اگر یہ بدسلوکی کرے گا تو لوگ اس کی تقلید کریں گے۔ لہٰذا اس کو مثال بنانا ضروری ہے۔ اس کی چمپئن شپ ختم ہو گئی۔ اشتہاری کمپنیوں نے معاہدے منسوخ کر دیے اور اسکا کیرئیر تباہ ہو گیا۔ جج نے یا کسی اور نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو تھی ہی ایسی، اپنی مرضی سے گئی تھی۔
یومِ آزادی پہ مینارِ پاکستان کے سائے تلے عائشہ کو جس طرح بھنبھوڑا اور برہنہ کیا گیا اس نے تو ہر ذی شعور اور ذی حس شخص کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا مگر کچھ ایسے جید بھی تھے جنہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ تو تھی ہی ایسی۔
سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ اُس کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ اس نے کچھ تو کیا ہو گا کہ اوباش لونڈوں کے گروہ نے اس کی بےحرمتی کی۔ اور لڑکیاں بھی چست لباسوں میں پھرتی نظر آتی ہیں، انہیں کیوں کچھ نہیں ہوا؟ جب معلوم ہوا کہ وہ ٹک ٹاکر ہے تو ان کی تسلی ہو گئی کہ وہ تو تھی ہی ایسی لہٰذا معاملہ اتنا سنگین نہیں۔ چار سو ہوس زدہ لونڈوں کے گروہ نے اسی لئے مناسب جانا کہ اُس لڑکی پہ جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کو بھنبھوڑنے اور اس کے کپڑے کھینچ کے اتارنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ تو ہے ہی ایسی۔ میں سوچتا تھا کہ ایسی سفاکیت کا دفاع تو کوئی انتہائی جاہل یا جنگلی ہی کر سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ بظاہر معزز چہروں کے پیچھے منافقت زدہ غلیظ سوچ کے لوگ وافر تعداد میں مل جاتے ہیں۔ ان کی اور سانحۂ مینارِ پاکستان کے مجرموں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں عورتوں کو اپنی بےحرمتی کے لئے موردِ الزام ٹھہرانے کے لئے دلائل دیے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے ہم نے اپنی نسلوں کو تربیت ہی یہ دی ہے کہ ’’لبّی چیز خدا دی“۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ شاید یہ عورت رتی بھر بھی آزاد منش ہے تو اس کو ’’فری فار آل‘‘ تصور کر لیا جاتا ہے۔
ریاست کا حال بھی وہی ہے جو معاشرے کا ہے۔ 15پہ عائشہ کی مدد کے لئے کی گئی کالیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔ اس کارکردگی پر اور اس روح فرسا حادثے پر کوتوالِ شہر کو اپنی مذمت و ملامت تو کرنی چاہئے۔ صوبیدار کے ماتھے پر ندامت کا پسینہ تو آنا چاہئے۔ ریاستِ مدینہ بنانے کے دعویدار کی رات کی نیند تو اڑ جانی چاہئے مگر شاید ان سب کو یقین ہے کہ وہ تو تھی ہی ایسی۔