جبر کا موسم تھا ، ضیائی ظلمت کی صلیبیں ہر دریچے میں گڑی تھیں، طواف ِ کوئے جاناں کے لیے نظر چرا کے اور جسم و جاں بچا کے چلنے کا چلن تھا، ایسے میں دل و دماغ کو معطر کرتی ہوئی احمد فراز کی شاعری چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کر رہی تھی ۔ چیختی چنگاڑتی ہوئی یہ شاعری خوشبو کی طرح ملک کے طول و عرض میں پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے احتجاجی تحریک بن گئی۔ ایک ایسی تحریک جس نے غزل میں احتجاج کو ایک نیا رنگ دیا اور آمریت کے بوجھ تلے دبے سماج کو مزاحمت کی ترغیب دی ، جاتے جاتے فراز کو شکوہ تھا کہ پاکستان میں اب احتجاج کی شاعری دم توڑ چکی ہے۔
یقین کرنا پڑے گا کہ اب کسی احتجاجی جلسے یا مشاعرے میں فراز نہیں آئے گا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسمانی لحاظ سے آسودہِ خاک ہونے کے باوجود معنوی و روحانی طور پر فراز ہم میں موجود رہے گا، آپ کی پوری شاعری محبت اور انقلاب کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔
آپ نے فیض کی طرح محبت اور انقلاب کو الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہونے دیا ۔ غمِ دنیا کی دل فریبی میں کھو کر محبوب کی یاد سے بے گانہ بھی نہیں ہوئے نہ ہی پہلی سی محبت کی عدم دستیابی کا رونا رویا ۔ فراز کا بنیادی فلسفہ ہی محبت ہے، یہ ایک ایسا احساس ہے جس سے نت نئے نظریات نمو پاتے ہیں اور آخر کار یہی نظریات انقلابی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں، بے پناہ سیاسی و سماجی شعور نے فراز کی شاعری کو دوآتشہ کر دیا ہے ۔
یہ شاعری ایک ایسے سفر کی یاد دلاتی ہے جس میں اونچے اونچے پربتوں کے درمیان سرسبز و شاداب وادیاں ہیں، ٹھنڈے میٹھے چشمے ہیں، چشموں سے پھوٹتی آبشاریں ہیں، شفاف جھیلوں میں اُترتے چاند کی جھلمل ہے اور ایبٹ آباد کی شملہ پہاڑی کے دامن میں کسی گڈریے کی بانسری سے نکلتی مدھر تانیں ہیں اور ایک رقصِ بسمل ہے جس نے محبت کرنے والے ہر دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے ، جہاں ہر صورت ایک مورت ہے اور ہر شکل سے سسی پنوں، ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی شبہییں ابھرتی ہیں۔
فراز نے پورے عہد کو محبت کا نصاب دیا ہے، مکتبِ عشق میں جس کو چھٹی مل گئی اس کی حرماں نصیبی کا درماں بھی فراز کی شاعری ہے اور جس کو چھٹی نہ ملی اس کی بیاضِ زیست کے ہر صفحے پر بھی فراز ہی کے شعر نقش ہیں۔
جیل ، جلاوطنی اور شہر بدری کے باوجود فراز نے آخری سانس تک شکوہِ قلم کی لاج رکھی، کراچی پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بن باس سے واپسی کے بعد آپ نے اپنے مقبول نظم ’محاصرہ‘ پہلی بار وہیں سنائی تھی، جس کی پاداش میں انہیں صوبہ بدر ہونا پڑا تھا ۔
مشہور غزل ’سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘ بھی فراز نے پہلی بار کراچی پریس کلب ہی کے مشاعرے میں سنائی تھی، کراچی سے آپ کا رشتہ اس لیے بھی اٹوٹ رہا ہے کہ پہلی ملازمت بھی آپ نے کراچی میں اختیار کی تھی ۔ پھر ریڈیو پاکستان سے ہوتے ہوئے اکادمی ادبیات تک پہنچے تو کوثر نیازی سے ان بن کی وجہ سے نوکری سے نکال دیے گئے، کوثر نیازی نے آپ کی پوری شاعری کو خلافِ اسلام قرار دیا ۔
ایک دن فراز اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے کہ دروازہ زور سے پیٹا گیا، فراز نے باہر جا کر دیکھا تو چار پانچ مولوی حضرات کھڑے تھے ۔ انہوں نے فراز سے کہا ’ کلمہ سنائیں‘، فراز نے حیرانی سے پوچھا ’کیا نیا آیا ہے ؟‘
بعدازاں فراز کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر زنداں میں بند کر دیا گیا ، بھٹو صاحب کی مداخلت پر رہائی ملی تو فراز نے بھٹو سے کہا کہ آپ جنرل ضیاء اور کوثر نیازی سے ہوشیار رہیں جس پر بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا ، ان کا پی این اے سے معاہدہ ہو گیا ہے لہذا فکر کی بات نہیں، آپ شاعری کرو، فراز نے کہا۔ ہاں شاعری تو ہو گی لیکن یاد رہے کہ میں حبیب جالب یا جمیل الدین عالی نہیں ہوں ، اپنی وضع کو بدلنا فراز کے بس کی بات بھی نہ تھی ۔
انتقال سے قبل دنیا سے کچھ کٹ سے گئے تھے لیکن پھر بھی ایک اور ڈکٹیٹر کی رخصتی دیکھ کر رخصت ہوئے۔