کینسر جیسے لاعلاج مرض پھیلانے والے نشہ آور گٹکا ،مین پوری اور ماوہ کی بے شمار پروڈکٹ کھلے عام پُورے سندھ میں فروخت جاری ہے، جب کہ اس منافع بخش کاروبار کے ذریعہ تجوریاں بھرنے میں نہ صرف منشیات فروش، بلکہ مبینہ طور پر قانون کے رکھوالے اور برسراقتدار جماعت کے بااثر افراد بھی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں صورت حال یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک ٹرک گٹکا کی اسمگلنگ پر صرف نظر کرنے کی رشوت پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی سے کشمور تک یہ زہر دھڑلے سے فروخت کیا جارہا ہے، جب کہ نوجوان طبقہ میں اس کی کھپت بڑھنے سے ماضی میں5 روپے میں بکنے والی ایک پڑیا کی اس وقت قیمت بیس روپیہ تک جا پہنچی ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ اگر کوئی یہ کھالے تو اس میں موجود کیمیکل اس کے جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کردیتا ہے اور جب تک اس کو جلد از جلد دوسری پڑیا نہ ملے، وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنا شروع کردیتا ہے، جیسے جیسے اس کی عادت پختہ ہوتی جاتی ہے، دن اور رات میں اس کی ڈیمانڈ بڑھ کر اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک شخص پانچ سو روپیہ تک کی زیڈ اکیس ،مین پوری یا نشہ آور ماوہ کھاجاتا ہے۔ نشہ آور مین پوری ،زیڈ اکیس اور ماوہ کی تیاری کن مراحل سے گزر کر عملی شکل اختیار کرتی ہے، اس بارے میں ان اشیاء کی تیاری کے ماہر کاری گروں کا کہنا ہے کہ اگر استعمال کرنے والے ان اجزا کو دیکھ لیں تو پوری زندگی زبان پر نہ رکھیں۔
اب تو گنجان آباد علاقوں اور دور دراز دیہات میں چھوٹی چھوٹی مشینوں کے ذریعہ گٹکے کی تیاری اور ترسیل کا عمل جاری ہے، جب کہ اس گٹکے میں جو اہم اجزاء شامل کیے جاتے ہیں، ان میں چون ااورکتھے کے علاوہ مختلف قسم کے کیمیکل نشہ آورادوایات اور تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے نقصانات کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم فیض کا کہنا ہے کہ چونا منہ میں موجود باریک جھلی کو کاٹتا ہے اور اس کے کاٹنے اور جڑنے کے عمل کے دوران ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ منہ کی باریک جھلی میں جڑنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی اور یہیں سے منہ کے کینسر کی ابتدا ہوتی ہے، جب کہ تمباکو کتھا چونا اور کیمیکل معدے جگر گردوں کے علاوہ بینائی اور دل و دماغ کو کس طرح کے نقصان پہنچارہے ہیں۔
اس کا عملی ثبوت کینسر اور جنرل اسپتال کے وارڈ ہیں، جو ڈاکٹروں کے مطابق مریضوں سے بھرچکے ہیں۔ اس بارے میں نجی کینسر اسپتال کے ڈاکٹر غلام اصغر چانڈیو کا کہنا ہے کہ اب تو زیڈ اکیس پان پراگ گٹکا مین پوری اور نشہ آور ماوہ کے ذریعہ کینسر خریدنے والے مریض سندھ کے علاوہ بلوچستان کے دورافتادہ علاقوں سے بھی لائے جارہے ہیں۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈویژن کے تمام ایس ایس پیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ منشیات جس میں چرس ہیروئن کچی شراب شامل ہیں۔ کے علاوہ گٹکا مین پوری زیڈ اکیس اور نشہ آور ماوہ کے اسمگلنگ روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کریں اور ایسے عناصر کو پکڑ کر ان برائیوں کو ختم کرکے معاشرے کو پاک کریں۔ ضلع شہید بے نظیر آباد پولیس کے ایس ایس پی نے ایک ماہ کے دوران تابڑ توڑ کارروائیاں کرکے گٹکا فروشوں کی کمر توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے جنگ کو بتایا کہ 26 جون کو منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ضلع پولیس نے ریلی نکالی اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ گٹکا کی تمام اقسام کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے گی اور اس عزم اور ارادے کو پایہ تکمیل تک اس طرح پہنچایا گیا کہ سی آئی اے پولیس کے سربراہ مبین پرھیار نے کریک ڈاؤن کرکے گٹکے سے بھری بس پکڑی، جس میں ایک کروڑ روپیہ سے زائد مالیت کا گٹکا بھرا تھا، جب کہ زیرو پوائنٹ پر بھی گٹکے سے بھری کار پکڑی گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ جام صاحب شہر میں گٹکا بنانے کا پانچ ہزار کلو مٹیریل برآمد کیا گیا۔ایسی ہی کارروائیاں سکرنڈ قاضی احمد اور دوڑ میں کی گئیں۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ضلع شہید بے نظیر آباد کی پولیس نے زہریلے گٹکے کی یہاں سے سندھ بھر میں ترسیل کی سپلائی لائین کاٹ کررکھ دی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گٹکا اسمگلروں نے پولیس کو رجھانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن پولیس افسران نے جس طرح کارروائی کی، وہ قابل ستائش ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کاعزم کیا ہے کہ اس برائی کوجڑ سے اکھاڑ کر دم لوں گا۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ حیدرآباد ریجن میں ضلع شہید بے نظیر آباد پولیس کو جس طرح جرائم کنٹرول میں اوّل نمبر ملا، امید ہے کہ رواں ماہ میں سماجی برائی کی روک تھام پر ضلع شہید بے نظیر آباد کو اوّل نمبر ملے گا ۔
ایس ایس پی امیر سعود کا کہنا تھا کہ ماضی میں گٹکا مین پوری سمیت نشہ آور ایسا مادہ جو انسانی زندگی کے لیے مضر صحت ہو، اس کی تیاری فروخت اور ترسیل کرنے والے کے خلاف دفعہ 337 ppc جس کے ملزم کو جرم ثابت ہونے پر دس سال قید جرمانہ اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا کے مقابلے میں 2017 میں گٹکا اینڈ ماوہ ایکٹ کے تحت 3/4 ایکٹ 2017 لاگو کیا گیا اور اس کاروبار کے کرنے والے پر اس کو قابل ضمانت جرم قرار دے کر جرم ثابت ہونے پر تین سال سزا کا قانون بنایا گیا، جس کے بعد یہ صورت حال بنی کہ اس سماجی برائی کے مرتکب نشہ آور گٹکا اور اس کی دیگر اقسام بنانے اور بیچنے والے افراد پکڑے جانے پر ضمانت کراکر پھراسی کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب امیر سعود نے بتایا کہ دوڑ پولیس نے شکار پور سے اغواء شدہ خاتون مسمات خدیجہ عرف ریما کو بازیاب کراکر تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں منظم گروہ بھولی بھالی لڑکیوں کو پسند کی شادی کا جھانسہ دے کر گھروں سے بھگاتے ہیں اور کئی ماہ تک ان کو ساتھ رکھنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد نکاح کے نام پر بڑی عمر کے دولت مند فرد سے منسوب کرکے اس سے منہ مانگی رقم کے عیوض شادی کرانے کا کاروبار اور اس طرح گھر سے نکلنے والی لڑکیوں کی زندگی اجیرن کررہے ہیں۔
بلاشبہ پولیس کا کام جرائم کا خاتمہ ہے۔ تاہم معاشرے کا ذمے دار طبقہ جن میں علماء، اساتذہ ،سیاسی رہنما اور افسران شامل ہیں، کابھی فرض ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے معاشرے کے حالات کا ادراک کرکے برائی کے خلاف جدوجہد میں پولیس کا ساتھ دیں، تاکہ جرائم کی بہ جائے اچھائی فروغ پاسکے۔