• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوشحال وزیر اعظم بدحال عوام

یہ خبراگرچہ ایک دن پرانی ہے، لیکن بہرحال مستند ہے ان کا یہ فرمایا ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے سرمستی کے عالم میں یہ کہہ دیا کہ ’’لوگ خوشحال ہو رہے ہیں‘‘ اور لوگوں کی انگلیاں دانتوں تلے کٹ گئیں، کیوں کہ وہ وادیٔ حیرت میں ڈال چلے تھے، انہوں نے یہ حیرت بھی ڈھا دی کہ میرے اعداد و شمار ڈار والے نہیں، اصلی ہیں۔ کہیے اصل اور نقل میں فرق مٹ نہیں گیا؟ کیا کمال بازیگری ہے لفظوں کی اور ہم نے بھی اصلی اعداد و شمار پر مبنی سرخی جما کر دہی جما دیا ہے، اس کی بھی کوئی داد ہے کہ نہیںبیداد نگر میں؟سستی بجلی، سستا آٹا، سستی گیس، اب اس سستی کو زبر سے پڑھیں یا پیش سے، لوگ بلاشبہ مہنگائی تلے بھی خوشحال ہیں، یہ تو سیدھا سیدھا طلسم ہوشربا ہے، ٹیم ناتجربہ کار تھی تو کچھ عرصہ مزید ٹین بجاتے رہتے یوں کالے پانی میں چھلانگ کیوں لگا دی؟ کیا طرحدار بیان ہے کہ لگتا ہے ’’دوپٹہ میرا سست رنگیا‘‘ کیسی تبدیلی لائے کہ پچھلے گناہ گار بھی نیکو کارلگنے لگے، شادباد خان صاحب مبارکباد، شاید غالب نے آج کے لئے ہی کہا تھا۔ ؎

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ممکن ہے صبح صبح قد آدم آئینے میں اپنے خوشحال تن من دھن کو دیکھ کر بے محابا منہ سے نکل گیا ہو، ’’لوگ خوشحال ہو رہے ہیں‘‘ البتہ ٹیم نکمی ہے، کرپشن گرم ہے، اقتدار کی راہداریوں میں، ساقی نے کیا مزا دیا ہے دلداریوں میں، وہ بھی خوش، جواری بھی خوش، ’’پٹواری‘‘ بھی خوش۔

٭٭٭٭

لیسکو، وافر بجلی، ناکافی ٹرانسفارمر، رشوت

سب ڈویژن عامر ٹائون فیز ون میں رات کوٹرالی پررکھے ایک ٹرانسفارمر میں ایسا دھماکا ہوا جیسے سورج مغرب سے نکل آیاہو ، لاہور کی عوامی بستیوں میں لیسکو کا نظام جس قدر بدنظمی کا شکار ہے کہ اسی قدر اس کے کرتا دھرتا غفلت کی چادر اوڑھ کر لمبی تان کر سو رہے ہیں، مہنگی ترین بجلی کےبل غریب ترین عوام نہایت باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ ہم نے ماہرین سے رائےلی ہے کہ بجلی وافر ہے، تقسیم کے ناقص نظام اور ٹرانسفارمرز کی کمی کے باعث لیسکو چاروں شانے چت پڑا سسک رہا ہے، نچلے درجے کے اہلکار جو لیسکو کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جہاں مرمت کرتے ہیں غیر تسلی بخش حالت میں چھوڑ جاتے ہیں، اسی طرح رشوت کا بازار گرم ہے جس کی شہادت لیسکو کے ایک آن ڈیوٹی ایس ڈی او نے دی کہ’’ لیسکو میںرشوت عام ہے‘‘۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لیسکو میں نفری کم اور زیر انتظام علاقہ وسیع تر ہے۔ ہم نے لیسکو کی ہر ادا بیان کردی ہے اب لیسکو خود اپنی ادائوں پر ذرا غور کرلے، ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ نچلے درجے کے اہلکاروں کو کوئی مراعات نہیں دی جاتیں اس کےباعث وہ اپنا غصہ صارفین پر نکالتے ہیں، کھمبوں کی عدم فراہمی کے نتیجے میں لیسکو جگہ جگہ زمین پر آرام فرما ہے، ان تاروں کے بنڈلز کو اٹھا کر کھمبوں پر لاد دیا جائے، یہ نہ ہو کہ کورونا اور لیسکو جڑواں کہلانے لگیں کیونکہ حبس کے عالم میں بجلی کی عدم فراہمی وبائوں، بلائوں میں فرق مٹا دیتی ہے، بجلی کے بلوں کی باقاعدہ ادائیگی غریب عوام ہی کرتے ہیں اور ان ہی کو زرخرید بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے، آخر کیوں؟ گورنر اور سی ایم پنجاب بھی سب اچھا ہے کی تصویر دکھانا ترک فرمائیں اور سستی شہرت کے ہتھکنڈے بھی استعمال نہ کریں، عوامی لاہور کی بھی خبر لیں، طبقہ خواص کو تو دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے ہاں ’’ستے ہی خیراں‘‘۔

٭٭٭٭

طالبان میں تبدیلی آئی ہے

طالبان کے ترجمان جس روانی سے انگریزی بول رہے ہیں، اس سے اگر یہ اندازہ لگایا جا رہےکہ بدل گئے طالبان کتنا بدل گیا آسمان، ابھی تو غالب کی طرح دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے، ہمیں بھی باقی تو سب ٹھیک لگ رہا ہے البتہ یہ جو کہاگیا ہے کہ شرعی قوانین نافذ ہوں گے تو پھر واقعی یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جسے ہضم کرنے سے لوگ جوق در جوق سپر پاور کی پناہ ڈھونڈنے چل نکلے ہیں، طالبان نے بہرحال افغانستان میں مغربی جمہوریت کے لئے راستے بند کردیئے ہیں، طالبان قدم جمانے میں مصروف ہیں اور خرقے پر کوٹ پینٹ بھی پہننے کو تیار لیکن جبہ و دستار کو کیسے چھپایا جاسکتا ہے، سعدی کا مقولہ یاد آگیا کہ ’’شاید در ایں پیشہ پلنگ خفتہ باشد‘‘ ممکن ہے اس جنگل میں کہیں جھاڑیوں میں چیتا سو رہا ہو، ہزار اجتہاد کرلیں اسلامی خلافت کو مغربی جمہوریت میں نہیںبدلا جاسکتا کیونکہ اب مسلم امہ بھی مغربی جمہوریت کی عادی ہو چکی ہے، ویسے یہ ’’تبدیلی‘‘ ہے بڑے کام کی چیز، ہمارے ہاں تو ابھی تک حقیقی مغربی جمہوریت کی حد تک شہرۂ آفاق عمرانی تبدیلی راستے میں ہے، اور افغانستان میں اسلامی شرعی قوانین کا نفاذ کیسے ہوگا، یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہوگا، مگر ابھی تک تو سکرین پر ایک ایسی تصویر نظر آ رہی ہے کہ جس میںپولیس والوں نے بعض افراد کے چہروں پر کپڑا ڈال رکھا ہوتا ہے۔ بس نچلا دھڑ نظر آتا ہے، فارسی شعر ہے :بر افگن پردہ تا معلوم گردد، کہ باراں دیگرے را می پرتسشد( پردہ اٹھا کہ یار لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ کسی اور کی پرستش کرتے رہے)۔

٭٭٭٭

تازہ ترین