• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کی دوسری قسط منظرعام پر آنے سے ٹیکس چوری، غیرقانونی طور پر رقوم بیرون ملک منتقل کرنے، منی لانڈرنگ اور جائدادیں خریدنے کے الزامات کے حوالے سے پاکستان کی مزید 259سیاسی اور کاروباری شخصیات شکوک و شبہات کی زد میں آ گئی ہیں۔ یہ تو کسی مجاز قانونی فورم کی باقاعدہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اصل صورت حال کیا ہے مگرایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے آف شور کمپنیوں میں اثاثوں کی مالیت 50ارب ڈالر ہے۔ ایک اور اندازے کے بعد پاکستان سے 12کھرب ڈالر سے زائد رقم قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک قائم آف شور کمپنیوں میں منتقل کی گئی۔ پاناما لیکس کی ابھی تیسری قسط بھی آنے والی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مزید پاکستانیوں کے نام بھی آ سکتے ہیں اور مزید آف شور کمپنیوں میں سرمائے کی منتقلی بے نقاب ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں پاناما انکشافات کی پہلی قسط نے ہلچل مچا دی تھی، اب مزید نام سامنے آنے پر اس میں اور شدت پیدا ہوگئی ہے۔ پیر کی شام قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس شروع ہوئے تو اپوزیشن نے اس مطالبے کو شدومد سے دہرانا شروع کر دیا کہ وزیراعظم ایوان میں آکر اپنے اور اپنے خاندان کے مالی معاملات کی وضاحت کریں۔ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے مالی معاملات شفاف نہیں مگر انہیں ایوان میں آکر اپنے اثاثوں کی تفصیلات تو ظاہر کرنی چاہئیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی کہا کہ وزیراعظم پاناما لیکس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے حکومت سے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس کو بات چیت کے ذریعے حتمی شکل دی جائے۔ گرماگرم بحث اور جوشیلی تقریروں کے بعد دونوں ایوانوں سے اپوزیشن پارٹیوں نے واک آئوٹ کر دیا اور اعلان کیا کہ جب تک وزیراعظم ایوان میں آکر وضاحت نہیں کرتے، وہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے رہیں گے۔ حکومت کی جانب سے عندیہ دیا گیا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں پاناما پیپرز سے متعلق تمام سوالات کا جواب دیں گے۔فی الوقت پاناما لیکس کی تحقیقات میں بڑی رکاوٹ عدالتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے مذاکرات کی ضرورت ہے مگر دونوں جانب سے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، حکومت تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کےلئے عدالت عظمیٰ سے مثبت جواب کی منتظر ہے جبکہ اپوزیشن کی بعض قوتیں اس موقع کو حکومت کو بلا ثبوت زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کیلئے استعمال کرنے کے موڈ میں نظر آتی ہیں۔ دونوں جانب سے قائدین نیک نیتی سے آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہوسکے، جہاں تک وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں آکر اپنے خاندان کے مالی معاملات کی وضاحت کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے تو وہ قوم سے خطاب اور عوامی جلسوں میں اس حوالے سے وضاحتیں کرتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں آکر بات کرنے میں کیا ہرج ہے؟ پارلیمنٹ قومی معاملات پر بات کرنے کا سب سے بڑا اور موثر فورم ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام نے ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچایا ہے۔ اگر معاملات پارلیمنٹ کے اندر طے کرنے کو ترجیح دی جائے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کا احترام کرے اور مشاورت اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرے تو کسی کو گلی محلوں اور سڑکوں پر جلسے جلوسوں کی ضرورت نہ پڑے پاناما لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ چکی ہے۔ وزیراعظم بھی اپنے خاندان کا سب سے پہلے احتساب کرانے کی پیشکش کر چکے ہیں تو باقی معاملات بھی افہام و تفہیم اور خوش اسلوبی سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ قوم کا وقت سیاسی لڑائی جھگڑے میں برباد کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ باہمی بات چیت کے ذ ریعے اختلافی امور طے کئے جائیں اور کرپشن کے علاوہ دہشت گردی، توانائی کے بحران، بے روزگاری، مہنگائی اور قوم کو درپیش دوسرے مسائل حل کرنے کیلئے ماحول کو سازگار بنایا جائے۔
تازہ ترین