کسی بھی ملک کی مستحکم معاشی صورتحال کا انحصار اس ملک کی برآمدات پر ہوتا ہے پاکستان کا المیہ یہی رہا ہے کہ ہمارے ہاں برآمدات مایوس کن رہیں ،اور اس کے مقابلے میں درآمدات کا حجم کئی گنا زائد رہا اور اس سے ہمارے ہاں خسارے کا سامنا ہی رہا ۔ہم نے نہ اپنی زراعت پر توجہ دی اور نہ ہی صنعت پر ۔دونوں شعبوں کا برا ہی حال رہا ہے اور اسی لئے جو بھی حکومت آئی اسے تنقید کا سامنا رہا کیونکہ برآمدات سے جو ڈالر ملتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں کہ ہمارا گزارا ہو سکے اور جس کے نتیجے میں ہمارے روپے کی قدر وقت کے ساتھ گرتی ہی رہی کسی حکومت نے روکنے کی مصنوعی کوشش بھی کی تو اس کے دور رس نتائج قوم کو بھگتنے پڑے مہنگائی کا طوفان اسی وجہ سے رکنے کا نام نہیں لے رہا کہ ہمیں ہر شے باہر سے ڈا لر دے کر منگوانا پڑتی ہے اور ہماری مقامی صنعت اور صنعت کاروں نے ترقی کی اس راہ کو مضبوطی سے نہیں پکڑا ۔
ہمارے ہاں صرف ایک سیکٹر ہے ٹیکسٹائل جس میں ہر دور میں کوشش کی گئی کہ اسے اپنے پائوں پر کھڑا کیا جائے اور برآمدات کو بڑھا کر ملک کو خسارے سے نکالا جائے اور یہ بیڑا اٹھایا اس ٹیکسٹائل سیکٹر کے سرپرست اعلی اور گروپ لیڈرا پٹما گوہر اعجاز نے اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر 13 سال پہلے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن میں ایک گروپ کو الیکشن میں شکست دی اور اب حالیہ الیکشن 2021 اور 2022 میں بھی پھر تیر ہویں سال مسلسل چاروں صوبوں اور مرکز میں کلین سویپ کیا اور نئے عہدے داران کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے ۔
گوہر اعجاز سربراہ اپٹما ہیں اور انکی مسلسل کاوشوں سے ہی یہ سیکٹر اب ایک بار پھر نئی کامیابیوں کی طرف گامزن ہے جس کی تفصیل آگے چل کر بتاتے ہیں اس سے پہلے بتاتے چلیں کہ گوہر اعجاز کو نامور کاروباری ، انسان دوست اور صنعت کار ہونے پر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حال ہی میں بزنس مینجمنٹ میں ان کی شاندار خدمات پر مینجمنٹ میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) سے نوازا گیا جو کہ ایک اعزاز اورانکی خدمات کا اعتراف ہے وہ اس کے یقینا ًمستحق بھی ہیں اس سے قبل ہی صدر پاکستان کی جانب سے شاندار خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔
وہ سوشل ورکر اور انسان دوستی کے طوپر پر کئی ہسپتالوں میں بھی مفت طبی علاج اور کھانے کی فراہمی میں بھی پیش پیش ہیں ۔
گوہر اعجاز نے اپٹما میں ہونے والی ملاقات میں بتایا کہ ان کی ٹیم نے ایک بار پھر سالانہ الیکشن میں بھر پور کامیابی حاصل کر لی ہے 24 نشستوں پر بالمقابلہ تمام امیدواران کامیاب ہوگئے ہیں اور رحیم ناصر خان نئے مرکزی چئیرمین اپٹما اور حامد زمان چئیرمین پنجاب زون منتخب ہوئے ہیں انھوں نے بتایا کہ یہ صنعت کاروں کا ان پر اعتماد ہے کہ پورے گروپ کو کامیابی ہوئی ہے اور ان کی ٹیم ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے مزید محنت سے کام کرے گی اوراہداف جو ہم نے برآمدات کے لئے اور روز گار کے لئے مقرر کئے ہیں انھیں ہر صورت پورا کرے گی ۔
گوہر اعجاز کہتے ہیں کہ ہم حکومت کی تین سالہ پالیسی سے مطمئن ہیں کیونکہ خصوصا ًپنجاب گزشتہ دس سال سے توانائی بحران کا شکار رہا ،، جب وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آئے تو ہم نے ان سے صرف ایک ڈیمانڈ کی تھی کہ ٹیکسٹائل سیکٹر جو تباہی کے دہانے پر ہے اسے صرف انرجی پالیسی دیں اس ریجن کے مطابق بجلی گیس کا ٹیرف ہونا چاہئیےتاکہ وہ مقابلہ کر سکے یہاں تو پاکستان میں بھی ایک ریٹ نہیں تھا ۔لیکن عمران خان نے کمٹ منٹ دکھائی اور اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں اور صنعت کاروں نے ثابت بھی کیا کہ جب انھیں ساڑھے چھ ڈالر پر گیس اور سات سینٹ فی یونٹ پر بجلی ملی تو ہماری صنعت چل پڑی ۔
آج ہم اللہ کے فضل سے اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے ہیں ا س سال 100 نئی ٹیکسٹائل ملیں شروع ہونےجارہی ہیں ۔اڑھائی ارب ڈالر کی نئی مشینری درآمد ہوئی اور مستحکم پالیسیوں کیو جہ سے مجموعی برآمدات میں تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور اس سال ٹیکسٹائل انڈسٹری نے ساڑھے پندرہ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی اور یہی سلسلہ ایسے جاری رہا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی برآمدات آئندہ دو تین سال میں 25 ارب ڈالر تک لے جائے گے۔ ہم تجارتی خسارے سے ملک کو نکال دیں گے یہ واحد صنعت ہے جو پوٹینشل رکھتی ہے اور روز گار بھی یہی صنعت مہیا کرتی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ریجنل انرجی پرائس کی وجہ سے حالیہ ترقی ہو رہی ہے گزشتہ سال کے مقابلے میںاس ماہ 17 فی صد زائد ایکسپورٹ کی جولائی میں ایک عشاریہ پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی گئی آنےو الے دو سالوں میں صنعت کار پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ،،نئی صنعتیں لگنے سے 20 لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا پاکستان کا تجارتی خسارہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ختم کرے گی۔
اپٹما کے رہنما گوہر اعجاز نے کہا کہ پاکستان کی فی ایکٹر پیداوار تین سو کلو جبکہ دیگر ممالک دو ہزار کلو گرام پر ہے امریکہ، برازیل، چین اور ازبکستان سے کپاس کا بیچ منگوایا ہےاپٹما نے ازبکستان کے ساتھ کپاس پیدا کرنے کے حوالے سے معاہدہ کیا ہے یہاں دس ہزار ایکڑ پر کپاس کی فارمنگ کر رہے ہیں ۔اس فارمنگ میں کپاس کی پیداوار کو تین سو کلو سے بارہ سو کلوگرام پر لے کر جانا ہے، اس پر ریسرچ کی جا رہی ہے۔
اپٹما نے کاٹن ریسرچ پر کام شروع کر دیا ہے ریسرچ سنٹر کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے کام کرے گا کیونکہ کسان کپاس سے نکل کر دوسری فصلوں کی طرف چلا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کپاس کی کمی کو دور کرنے کے لئے امریکہ، برازیل، چین اور ازبکستان کی مدد لی ہے جبکہ دس ہزار ایکڑ پر کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے ریسرچ شروع کی جا چکی ہے۔
گوہر اعجاز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ پر کہتے ہیں کہ ماضی میں اس کو روکا گیا اور مارکیٹ میکنزم کے مطابق چلنے نہیں دیا گیا جب سابقہ حکومت گئی اور نگران کے بعد پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 124 روپے کے لگ بھگ تھی اور اب 165 روپے کے قریب ہے تین سال میں مہنگائی 8 فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھی اور اس طرح تین سالوں میں فی سال 8 فی صد اور تین سال میں 24 فی صد کے قریب مہنگاہوا اب ہم نے برآمدات کو بہتر بنایا ہے اور درآمدات پر بھی کنٹرول کیا ہے اگر تجارتی توازن بہتر کریں گے تو ڈالر اوپر نہیں جائے گا یہی قیمت مناسب ہے مہنگائی کم کریں تجارتی توازن بہتر کریں خسارے کم کریں تو یقیناًروپیہ بہتر ہو سکتا ہے اس کے لئے حکومت اور سب سیکٹرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اب آپ زبردستی ڈالر کو نیچے نہیں لا سکتے مستحکم معاشی حالات ہی یہ فیصلہ کریں گے۔
انھوں نے ایک سوال پر کہا کہ دنیا میں اس وقت کاٹن کے نرخ 14500 روپے فی من ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارا کسان بھی کاٹن اگاتا اور فائدہ اٹھاتا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، فی ایکٹر پیداوار میں کمی رہی ہے اور ہمارا کسان کاٹن سے دوسری فصلات پر شفٹ ہو گیا جس میں گنا چاول گندم شامل ہے کیونکہ اس نے بھی گھر چلانا ہے وہ کب تک نقصان برداشت کرتا ۔اس نے اپنے بچے پالنے کے لئے اچھا فیصلہ کیا اس پرا سے برا کہنا درست نہیں یہ پالیسی سازوں کا کام تھا ریسرچ کرتے ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر جاتے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھاتے افسوس ایسا نہ ہوا ۔
گوہر اعجاز کہتے ہیں ہمیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر جانا ہو گا سمارٹ کارپوریٹ فارمنگ واحد حل ہے اب اس کے علاوہ گزارا نہیں چلے گا ہماری آبادی بڑھ گئی اس لحاظ سے نوکریاں فراہم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ہماری نوجوان نسل بے کار پھر رہی ہے سرکاری نوکریوں کا زمانہ گیا اب پرائیویٹ سیکٹر کو ہی یہ کام کرنا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ کوئی گھر ملک اس وقت تک نہیںچل سکتا جب تک وہ باہر سے کمائے گا نہیں یہی حال ہمارا ہے ہم ٹیکسٹائل مال باہر بیچیں گے تو ملک چلے گا ڈالر باہر سے آئیں گے تو یہاں کاروبار بڑھے گا نئی سرمایہ کاری لگے گی اور روز گار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ہمیشہ سے موقف یہی رہا ہے کہ صنعتوں کو سہولت دیں ہم کوئی ناجائز فائدہ نہیں مانگتے تھے ہمیشہ اپنا جائز حق مانگا وہ بھی ماضی کی حکومتوں نے نہیں دیا ۔نتیجہ یہی نکلا کہ پنجاب میں سو سے زائد ملیں ختم ہو گئیں لوگوں کے اربوں رو پے ڈوب گئے اور لوگ ملیں بند کر کے کیفے لگانے لگ گئے تھے جو افسوناک اس لئے تھا کہ اس سے روز گار نہیں مل سکتا تھا ہم نے اسی لئے شور مچایا تھا کہ کاروبار کو چلنے دو روزی روٹی چلے گی کاروبار بڑھے گا ڈالر آئیں گے تو مہنگائی اور بے روز گاری سے نجات ملے گی ۔
انھوں نے ایک سوال پر بتایا کہ پندرہ سال پہلے ہم نے ٹرین مس کر دی جبکہ امریکہ برازیل اور چین نے کاٹن میں انقلاب برپا کر دیا ان کی فی ایکڑ کپاس کی پیداوار 2 ہزار کلو گرام ہے اور ہم بدقسمتی سے 3 سو کلو گرام پر ہیں کسانوں نے ا س لئے کپاس اگانا ہی بند کر دی پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ ایگری کلچر کو فروغ ملے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت پاکستان کی کاٹن گروپ کے ساتھ ہمیشہ کھڑی ہے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی کاٹن ریسرچ کے لیے سارا پیسہ دینے کو تیار ہے ۔