طاقت صرف اسی کے پاس ہوتی ہے جو ’’ طاقتور‘‘ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی اشرافیہ نے اسی بیانیے کو قبول کرلیا اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیا پہلے طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے تھے اب یہ محض ایک مفروضہ بن کے رہ گیا ہے ورنہ شاید ہمارے مقبول سیاست دان ڈیل کرتے اور نہ ہی NROلیتے۔ دوسری سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جمہوریت یا سویلین اقتدار چاہے برائے نام ہی کیوں نہ ہو ،کسی ایک جمہوری نرسری کی آبیاری نہیں کی گئی چاہے وہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور خود مختار بنانا ہو یا طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین کی بحالی ہو۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاست میں نئے لیڈر کے نہ آنے سے ہوا۔ اب ایک کاری ضرب میڈیا کو لگنے والی ہے۔تیسرے سیاست میں کرپشن کا رحجان بے انتہا بڑھ گیا۔اب اگر آپ اپنے ووٹ پر ضمیر کا سودا کرتے ہیں تو نہ صرف آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے بلکہ جماعت میں آپ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔سیاست دانوں کی انہی کمزوریوں کی بناپر طاقت کا توازن عوام سے اشرافیہ کو منتقل ہوچکا ہے اور اب ہر پاور شو کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ شاید کوئی ڈیل ہونے جارہی ہے۔ کبھی کوئی ڈیل کرکے لندن چلاجاتا ہے تو کبھی واپس آجاتا ہے۔
ہم نے حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا مگر پچھلے13سال جمہوریت کے تسلسل کا جائزہ نہیں لیا کہ اس دوران یہ مضبوط ہوئی ہے یا کمزور ۔ ریاست کے وہ ستون جن پر یہ ساری عمارت کھڑی ہے اس کو ان تین حکومتوں اور حکمرانوں نے مضبوط کیا ہے یا ان میں دڑاریں پڑ گئی ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے نتیجے میں جو امید پیدا ہوئی تھی وہ دم توڑتی جارہی ہے۔ صحافت پر ایسی پابندیاں لگانے کی تیاری ہورہی ہے جس کے بعد’طاقت ور‘ ہی فیصلے کریں گےکہ کیا خبر ہے اور کیا فیک؟پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا چارج جب ذوالفقار علی بھٹو نے لیا تو جواز یہ پیش کیا گیا کہ ملک میں اس وقت کوئی آئین نہیں تھا بلکہ LFOتھاجس کے تحت 1970کے انتخابات کرائے گئے۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر عوامی لیگ کی عوامی قوت کو تسلیم کیا جاتا اور اقتدار منتقل کردیا جاتا۔
اب میڈیا اتھارٹی کے نام پر میڈیامارشل لا کی تیاری کی جارہی ہے اور وہ بھی ایک ہائبرڈ جمہوری نظام کے زیر سایہ، میں اس پر مزید اس وقت لکھوں گا جب یہ ڈرافٹ اپنی اصل شکل میں سامنے آئے گا۔ابھی تو عین ممکن ہے خود وزیر اطلاعات کے علم میں نہ ہو۔میں یہ بات محض مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا۔ مسلم لیگ(ن) کی پچھلی حکومت میں اس سے ملتا جلتا ڈرافٹ وفاق اور سندھ میں آنے والا تھا جس کے بارے میں خود وفاقی اور صوبائی وزرائے اطلاعات کو نہیں پتا تھا۔ مریم اورنگ زیب والا قصہ یاد ہوگا۔جب طاقت کا توازن عوام سے خواص کو منتقل ہوجاتا ہے تو پھر نظام کسی بھی وقت گرسکتا ہے کیونکہ عوامی طاقت پر یقین رکھنے والے طاقتور کےسامنے سرنڈر کردیتے ہیں ورنہ شاید نہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگتی اور نہ ہی بے نظیر بھٹو1986میں تاریخ کے سب سے بڑے جلوس اور عوامی قوت کے مظاہرے کے باوجود1988 میں ’جمہوریت کا تمغہ‘ کسی اور کو دے دیتیں۔نواز شریف بھی جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کے سامنے ڈٹے رہنے کے بجائے ڈیل کرکے نہ جاتے۔ آج بھی لڑائی لندن سے بیٹھ کرلڑی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا یا وڈیو لنک خطاب سے تحریکیں نہیں چلا کرتیں۔
محمد خان جونیجو مرحوم کے پاس نہ عوامی قوت تھی اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت مگر اپنے مختصر دور اقتدار میں اس نے کچھ ایسے کام کیے، اور جس کی اس کو قیمت بھی اپنے اقتدار سے جانے کی صورت میں ملی، جس سے جمہوریت کو مضبوط کرنے میں مدد مل سکتی تھی اگر اس وقت کی مسلم لیگ اس کے ساتھ کھڑی ہوتی۔اس نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنی پہلی تقریر میں چھ ماہ میں مارشل لا ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا’’ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ساتھ ہی اس نے شہری آزادیوں کی بحالی اور میڈیا کی آزادی کا اعلان کیا۔ یہاں ایک مزے کا واقعہ آپ کو سناتا چلوں۔تقریر کے بعد جونیجو کے ایک قریبی ساتھی نے ان کو بتایا کہ آپ کی تقریر کا وہ حصہ نشر نہیں کیا گیا جس میں مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہ چل سکنے کی بات کی تھی۔رات کو جونیجو نے اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات جو بہت ’طاقتور ‘ تھے، جنرل مجیب الرحمٰن کو بلایا اور تسلی بخش جواب نہ آنے پر صرف اتنا کہا ، ’’ آپ نے مجھے بہت ہلکا لے لیا۔‘‘ رات کو ہی ان کی برطرفی کا نوٹس جاری ہوگیا۔دوسرا بڑا کارنامہ اس کا اپنے سمیت، وزیروں، بیوروکریٹ اور فوجی افسران کو1600 اور 1300سی سی کی گاڑیوں میں سفر کرنے کی ہدایت تھی۔ بعد میں اوجڑی کیمپ اور جینواایکارڈ پر مضبوط پوزیشن لینا تھا۔
آج پاکستان کی سیاست ایک نیا رخ لےرہی ہے۔ ایک ایسا بیانیہ کھڑا کیا جارہا ہےکہ مزاحمت کرنا جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت بھی آرام سے بیٹھ کرکی جارہی ہے۔ یہ سارا سیاسی ماحول پاکستان تحریک انصاف کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے اور اس چیز کا قوی امکان ہے کہ عمران خان اس ملک کے پہلے وزیر اعظم بن جائیں جو اپنے پانچ سال پورے کریں۔ باقی پانچ سال کی باتیں بعد میں۔ایک زمانہ تھا جب پی پی پی کی مزاحمت ہوتی تھی جس کا پرچم بیگم نصرت بھٹو نے بلند کیا تھا مگر بدقسمتی سے اب یہ جماعت مفاہمت کی علامت بنتی جارہی ہے۔ سیاست میدانوں اور کھلیانوں سے واپس ڈرائنگ روم منتقل ہوچکی ہے۔ ایک طرف آصف زرداری اور بلاول بھٹو مفاہمت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ میاں صاحب ویڈیو لنک سے مزاحمتی تحریک چلارہے ہیں۔
ان13برسوں میں اگر یہ تین مقبول جماعتیں صرف جمہوریت کی بنیادوں کو ہی مضبوط کرتیں طلبہ، مزدور ، عدلیہ اور میڈیا کو آزاد اور خود مختار بناتیں تو شاید طاقت کے توازن میں عوام کا کوئی عمل دخل ہوتا ، سچ پوچھیں تو سویلین حکومتوں نے سویلین اداروں کو ہی کمزور کیا ہے۔ ایسے میں واحد امید پھر وہی نعرہ ہے؎
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)