اسلام آباد (شکیل انجم) گزشتہ 17؍ سال سے اس سوال کا جواب نہیں مل پایا کہ بینظیر بھٹو کا قتل کس نے کیا؟ ایک المناک واقعے میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انصاف کی تلاش اب بھی جاری ہے کیونکہ عدالت نے اس کیس میں ملوث 5 افراد کو پہلے ہی بری کر دیا ہے۔ ان میں اعتزاز شاہ، شیر زمان، عبدالرشید، رفاقت اور حسنین تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ تھے۔
یہ تنظیم 27؍ دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کے قتل سے صرف 12؍ دن قبل بیت اللہ محسود کی قیادت میں تشکیل پائی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان پانچوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور ان افراد کیخلاف اس ہائی پروفائل قتل کے حوالے سے ٹھوس شواہد دستیاب ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
تاہم، 15 دسمبر کو عدالت نے ناکافی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے اور کیس کی تفتیش جوڈیشل پراسیس کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور مشہور سیاسی شخصیت بینظیر بھٹو کو ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کے فوراً بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پستول اور خودکش بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اُن کی شہادت نے قوم اور دنیا کو صدمہ پہنچایا اور اس واقعے نے احتساب کے مطالبات کو وسیع پیمانے پر جنم دیا۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں، سازش میں ملوث افراد اور منصوبہ سازوں کی شناخت اور ان کیخلاف کارروائی میں ناکامی نے پاکستان کی انٹیلی جنس اور تفتیشی ایجنسیوں پر مسلسل تنقید کی راہ ہموار کی ہے۔
حملے سے ٹی ٹی پی کو جوڑنے کے ابتدائی الزامات اور بعد میں ہونے والی تحقیقات کے باوجود کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ان پانچوں افراد کی بریت کیس میں پائے جانے والے خلا کو اجاگر کرتی ہے اور ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے چیلنجز پر روشنی ڈالتی ہے۔ کئی لوگوں کیلئے یہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی دردناک یاد ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات گھومتے ہیں جن کا جواب اب تک نہیں مل سکا۔ بینظیر کے قتل کو 17؍ سال بیت چکے ہیں۔
انتخابی ریلی میں اُن کی شہادت نے قوم کو مایوسی میں مبتلا کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد حالات و واقعات تنازعات کا شکار ہوگئے، اہم شواہد کو مبینہ طور پر خراب کر دیا گیا جس سے تحقیقات کی ساکھ پر سوالات اٹھنے لگے۔ اہم فرانزک شواہد مٹا دیے گئے، جائے وقوعہ کو عجلت میں دھو دیا گیا، جبکہ مقامی بیوروکریسی میں نمایاں تبدیلیوں نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
اس وقت وزارت داخلہ کی طرف سے ایک پریس کانفرنس نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا، جس میں ٹی ٹی پی سے جڑے مبینہ مجرموں کی فون کالز اور خاکے پیش کیے گئے۔ تاہم، یہ دعوے بینظیر کی پیپلز پارٹی سمیت کئی لوگوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور آزاد و شفاف تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے۔
آصف زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے شروع کرائی گئی تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے پرویز مشرف پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرد یا۔
اقوام متحدہ کے تحت آزاد انکوائری کرانے کے متعدد مطالبات کے نتیجے میں 2009 میں اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو تشکیل دیا گیا جس نے بڑے پیمانے پر انٹرویوز اور تحقیقات کیں۔ لیکن اس کے باوجود، اس مشن کی رپورٹ کو غیر نتیجہ خیز اور مبہم ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس سے مزید شکوک و شبہات کو ہوا ملی۔
اس سازش کو اس وقت مزید ہوا ملی جب پرویز مشرف نے بعد میں اعتراف کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بینظیر بھٹو کی جان خطرے میں ہونے کے حوالے سے خدشات تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل ندیم تاج نے 26 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو سے ملاقات کرکے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ لیاقت باغ کی ریلی سے خطاب نہ کریں۔
ان انتباہات کے باوجود، بینظیر بھٹو نے ریلی سے خطاب کیا اور یہ فیصلہ بالآخر ان کی جان لے گیا۔ کئی برسوں کے دوران، کئی سازشی نظریات گردش کر رہے ہیں، جن میں مختلف افراد شامل ہیں، لیکن مجرموں کی نشاندہی کیلئے کوئی حتمی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
2008 سے 2013 تک اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی نے سچائی سے پردہ اٹھانے کیلئے اپنی بہترین کوششیں کیں۔ چونکہ اس وقت ملک بینظیر بھٹو کے قتل کی 17 ویں برسی منا رہا ہے، ان کی موت اب تک ایک بڑا معمہ ہے۔ ان کی پارٹی انصاف کے مطالبات کر رہی ہے اور عوام سوالوں کا جواب چاہتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بینظیر بھٹو کی موت کی تفصیلات غیر واضح ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان نے اس بارے میں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں پورا ملک محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر صدمہ کی کیفیت میں تھی لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ پارٹی کی حکومت بی بی کے قاتلوں کا سراغ لگانے اور انہیں کیفرکردار تک وہ نہیں کیا جس کی توقع کی گئی تھی بلکہ درست یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت وہ سب کیا جو ان کے لئے ممکن تھا جن میں یو این کمیشن اور سکاٹ لینڈ یارڈ سمیت قومی سراغ رساں ایجنسیوں کے تحقیقات کرائیں اور نتائج حاصل کئے۔