• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو زبان کا ایک محاورہ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ آج ذہن کی اسکرین پر اُس وقت بار بار نمودار ہوا جب افغانستان میں 20سالہ کنٹرول ختم کرتے ہوئے امریکی فورسز کے انخلا کی تکمیل پر امریکی صدر جوبائیڈن اپنی قوم سےخطاب کر رہے تھے۔ وہ گویا اپنی حماقت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کروانے میں کوشاں تھے کہ جو کچھ کیا ہے سب امریکی قوم کے مفاد میں تھا ورنہ ہمارے نوجوانوں کی بہت ہلاکتیں ہوتیں۔ میرے ہم وطنو! اس وقت روس اور چین سے ہمیں نئے نئے چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں اپنی توجہ افغانستان کی بجائے اس طرف مبذول کرنی چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہمارا اِس وقت وہاں کس قدر نقصان ہو رہا تھا، 20برسوں سے افغانستان میں ہمارے 3سو ملین ڈالرز روزانہ کی بنیاد پر برباد ہو رہے تھے لہٰذا اس جنگ کو مزید دس بیس برسوں تک جاری نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ ایسی لفاظی میں امریکی صدر جس چیز کو فراموش یا گول کر رہے تھے وہ تھا حفظ ماتقدم کے بغیر انخلا کا غلط وقت، مناسب منصوبہ بندی کے بغیر احمقانہ طریق کار، وہ ساڑھے 3لاکھ کی جس فورس پر اعتماد کر رہے تھے اس کی پرکھ کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا انتظامی مظاہرہ۔ وہ جس ٹولے کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے، اس کا سارا اہتمام کس کی نگرانی میں ہوا تھا؟ ان کوتاہیوں کے حوالے سے اپنی قوم کو اعتماد میں لینے کی بجائے وہ ادھر ادھر کی دیگر کہانیوں میں الجھا رہے تھے یا امیدوں کے نئے باغ دکھا رہے تھے۔ حضور! آپ کو کون کہہ رہا ہے کہ آپ امریکیوں کی ایک اور نسل کو اس جنگ کا ایندھن بنا دیتے؟ اگر آپ کو اپنے لوگوں کی ہلاکتوں یا مالی وسائل کے ضیاع کی اتنی ہی فکر تھی تو پھر اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کسی بھی مسئلے میں انسان سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالے یا پھر اسے منطقی انجام تک پہنچائے۔ آپ لوگوں کی پلاننگ ہی غلط تھی، ہر چیز پیسے اور طاقت کے زور پر ممکن نہیں ہوتی۔ کل آپ جن کو شکار کرنے آئے تھے، آج انہی کے ہاتھوں شکار ہو کر جا رہے ہیں۔ آج آپ نہتے شدت پسندوں کو 85ارب ڈالر کا اسلحہ دان کر کے کر جا رہے ہیں، اپنے 73جہاز اور 70حساس نوعیت کی گاڑیاں ان کے لئے چھوڑ رہے ہیں، اتنا بڑا اور وسیع انفراسٹرکچر ان کے حوالے کرنا تھا تو بھلے انسانوں کی طرح ایک زیادہ بہتر ڈیل کے ساتھ یہ سب کیا جا سکتا تھا۔ کیا امریکی اہلِ دانش میں کوئی نہیں جو اس جگ ہنسائی پر آپ سے یہ پوچھے کہ اگر یہی کھسیانی ہنسی ہنسنا تھی تو پھر اتنے بڑے لائو لشکر، اتنے بڑے بحری و فضائی بیڑے تیار کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اتنی بھاری فورسز کیا آپ لوگوں نے محض نمائشی ڈراموں کے لئے تیار کر رکھی ہیں؟ وسائل کاہے کیلئے ہوتے ہیں، اعلیٰ و برتری انسانی ٹارگٹس کو ممکن بنانے کے لئے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ گزشتہ 20برسوں میں خود افغانوں کی جو نئی نسل پل کر جوان ہوئی ہے، اس نے انسانی حقوق اور آزادیوں کی جو فضا دیکھی ہے، اسے نظریہ جبر کے تحت غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا یا باندھنا شاید اب ممکن نہیں رہے گا۔ خود طالبان ملا عمر والے طالبان بن کر جی سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے۔ موجودہ بدلے ہوئے افغانستان میں طالبان کیلئے اپنے فہم کی مطابقت میں حکمرانی ممکن نہ ہو سکے گی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر افغانستان کی معیشت پر جو بدترین زد پڑنے والی ہے، طالبان کی روایتی سوچ اس کا سامنا کرنے سے قاصر رہ جائے گی۔ ماقبل آپ سوویت امداد کے سہارے چلتے یا پلتے رہے پھر ریال پہنچے اور اب ڈالروں کی بھرمار بھی اختتام پذیر ہو رہی ہے نتیجتاً پیدا ہونے والی عوامی بےچینی کا چیلنج تو درپیش ہوگا۔ جنگجو ہونا بلاشبہ ایک خوبی سہی لیکن یہ خوبی گڈ گورننس یا عوامی مسائل اور دکھوں کامداوا نہیں بن سکتی۔ آپ لوگ بلاشبہ اپنی انتقامی سوچ کے اختتام والے اچھے بیانات جاری فرما رہے ہیں۔ پوری دنیا کو یہ یقین دہانی کروانے کے لئے کوشاں ہیں کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف استعمال کرنے یا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے مگر آپ کے اپنے لوگوں کی جو تربیت یا ٹریننگ ہے، اس کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ خام خیالی کیسے حقیقت کا روپ دھارے گی؟ آپ اپنے سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، سب کا خیال رکھیں گے، بڑی اچھی بات ہے مگر خدشہ یہ ہے کہ یہ بھی بائیڈن کی طرح خوش آئند لفاظی تو نہیں ہوگی؟ فطرت کو آخر کتنی دیر جکڑ کر رکھا جا سکتا ہے؟ درویش اپنے اہلِ وطن سے بھی عرض کرنا چاہتا ہے کہ آپ لوگ کس برتے پر اتنی خوشیاں منا رہے ہیں؟ اہلِ وطن کو اس پہلو پر ضرور غور فرما لینا چاہئے کہ وہ اندر خانے جس ٹی ٹی پی کا خوف محسوس کر رہے ہیں، اس آزادی سے پہلے والے غلامی کے دور میں اس شدت پسند گروہ کے ساڑھے سات سو کے قریب شرارتی بچے اپنے امیر کے ہمراہ قید و بند میں تھے، جنہیں سبز سویرا آتے ہی پروانہ آزادی مل گیا ہے۔ رہ گیا بھارت تو اس کے ساتھ چھیڑ خانی سے پہلے ہمارے طالبانی بھائی سو مرتبہ سوچیں گے، لہٰذا جشن منانے کی بجائے حقائق کو پرکھ کر جیو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین