• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیشتر سائنسی اندازوں کے مطابق زمین تقریباً ساڑھے چار ارب سال سے موجود ہے۔ بنی نوعِ انسان دوسری مخلوقات کی طرح یہاں موجود تھی۔ پیدا ہونا، زندگی بسر کرنا، نسل بڑھانا اور پھر جنّیات اولاد میں منتقل کرنے کے بعد مرنا جانا انسانیت کا فطری چکر رہا ہے۔ انسان معاشرتی جانور تھے، جو شکار یوں کی طرح کنبوں میں رہتے تھے۔ مردوں نے شکاری جانوروں کا شکار کیا اور لڑائیاں لڑیں جب کہ خواتین نے بچوںکی پیدائش اور پرورش کی ایک طرح سے وہ فطرت، جنگلی جانوروں اور عناصر کے رحم و کرم پر تھے۔ انسانوں نے غیر معمولی دماغی پرورش پانا شروع کی۔ اس کے ساتھ ہی آگ، اوزار اور قبائل کی تنظیم وجود میں آئی جس نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا۔

آگ کی دریافت کے بعد، خواتین نے زراعت ایجاد کی۔جلد ہی مردوں کاکردار اورطرز زندگی بدل گیا۔ اس سے پہلے، انسان پھل، شکار، سازگار موسم اورزرخیز علاقوں کی تلاش میںمستقل محوِ سفر رہتا۔ زراعت نے انسانی طرز زندگی کو تبدیل کردیا۔ کچھ سو سال میں خوراک کی فراوانی ہو گئی۔ زراعت نے خاندانوں اور قبائل کو معاشرت میں پرو دیا ، جو تہذیبوں اور سلطنتوں کی بنیاد بنی۔

مشرق وسطیٰ کی ابتدائی سلطنتیں ان آبادکاروں پر مبنی تھیں جو افریقہ چھوڑکر آئے تھے۔ جلاوطن کنبے افریقہ، ایشیاء اور یورپ میں پھیل گئے۔دنیا بھر میںافواج تشکیل پائیں،مذہب، فن، شاعری، انفراسٹرکچر، بادشاہوں کی وفادار سول سروس کاشتکاری اور اسلحہ سازی پر کام ہوا۔ معیشت اور سکے وجود میں آئے۔ آباد کاروں نے یونان، مصر، ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں کو جنم دیا۔ ایشیاء میں فارس کی سلطنت تھی جبکہ مصری اپنے عمدہ اہرام اور اسپنکس کے ساتھ افریقہ سے نمودار ہوئے۔ مصریوں نے فن تعمیر، مذہب، بادشاہت اور زراعت کے میدان میں پیشرفت کی۔ یونانیوں کی کتابوں میں یہودیت اور عیسائیت کی مقدسات سمیت فرعون کی کہانیوں کی گونج سنائی دی۔ یونانی یورپ میں فلسفہ، حکمت اور استدلال پر غوروخوض کرتے رہے۔ یونان کا عقیل و عالم سکندر اعظم دنیا کے سامنے آیا۔سکندر کے ساتھ ہی رومی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔

سکندر کی موت کے بعد، یونانی اور مقدونی بہت پیچھے رہ گئے۔ سقراط، افلاطون، ارسطو، گورس، پائیٹا گورس اور بہت سے دوسروں نے تاریخ میں اپنے نام سنہری حروف سے تحریر کروائے۔ یونانیوں کے بعد، رومیوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کے نظریات اور تصورات کو وسعت بخشی۔ رومیوں نے سسلی سے آغاز کیا اور یونانی علم کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں نئے رجحانات لائے۔وہ بہتر جنگجو اور ماہر مینیجر تھے۔ جلد ہی انہوں نے نظم و نسق اور انتظامی مہارت کی مدد سے لشکروں کے ذریعے پورے یورپ کو فتح کرلیا۔ اس کے بعد، افریقہ اور پھر ایشیاء کے کچھ حصے رومنز کے کنٹرول میں آئے۔ جولیس سیزر، اگسٹس، مارکس اوریلیس، مارکس ٹریجانس جیسے ناموں نے اپنی دھاک بٹھائی۔ رومیوں نے 700 سال سے زیادہ انسانیت پر غلبہ حاصل کیے رکھا، یہ ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد، رومی سلطنت بدعنوانی، تقسیم اور تفرقے کی زد میں آگئی۔ عیسائیت، شہنشاہ کانسٹائن کے تحت ریاستی مذہب بن گیا اور سلطنت مشرقی اور مغربی حصوں میں بٹ گئی۔ اسی طرح، بیک وقت رومیوں کے ساتھ، عرب کے700 کے قریب قبائل وحدہ لاشریک اور قرآن کے تابع ہو کر اسلام کے پرچم تلے متحد ہوگئے۔ انہوں نے عرب سلطنتوں اور پھر فارس کو فتح کرکے اپنی سلطنت کا آغاز کیا۔

وقت بڑی سے بڑی طاقت کو مٹادیتا ہے ،جنہیں مٹا نہیں پاتا ان کی ہیئت اور شکل ضرور بدل دیتا ہے۔ عرب سلطنت عباسیوں اور پھر ترک عثمانیوں کے حصے میں آگئی۔ چار مرحلوں میں، مسلم غلبہ رومن عہد سے زیادہ عرصہ تک قائم رہا۔ جبکہ مسلمان ترقی کے عمل میں جمود کا شکار ہو کر رہ گئے، یورپیوں نے پرانے علوم کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے استدلال اور منطق کی کھوج کی۔ چودہویں صدی کے آس پاس، آرٹ، ثقافت، علم اور تجارت کو انگلینڈ اور یورپ میں اپنا نیا ٹھکانہ میسر آیا۔تدریجی مراحل سے گزرتی انسانیت نے فکری طور پر نئے اطوار اور پالیسیوں کا مشاہدہ کیا۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں نے فکری تبدل کے ساتھ پالیسیاں بنائیں۔ استعماری سلطنتیں بنانے کی بجائے، یورپی ممالک نے قوموں کو دوسری قوموں کو پامال اور ان کو تباہ کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی روش اپنائی۔ یہ اقدامات قدیم جنگلی حملہ آوروں کی یاد دلاتے ہیں۔ استعمار نے بعد ازاں تباہی مچا دی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو جنم دیا پہلی میں ترک سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور استعمار نے اپنی موت کی جانب سفر کاآغاز کیا۔ اگلے 50 سال میں، اکثریت والی قوموں نے نوآبادیاتی آقاؤں کی زردی نکال دی۔ آزادی کے ساتھ ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔ دو عالمی جنگوں میں، یورپی طاقتیں کمزور ہو گئیں، روس اور امریکہ دو نئی طاقتیں ابھریں۔

عالمی جنگوں سے سو سال میں، پہلے روسی فیڈریشن کو بدعنوانی، داخلی عدم استحکام اور امریکیوں کے انسدادی ہتھکنڈوں سے ختم کردیا گیا۔ امریکیوں نے دنیا پر غلبہ حاصل کیا۔ لیکن ایک بار پھرگزشتہ طاقتوں کی طرح، ان کا عروج بھی زیادہ تر اندرونی شورشوں اور ایک اور بڑھتی ہوئی طاقت،چین کی وجہ سے زوال کی طرف رواں دواں رہا۔ 4000سال سے زیادہ پرانی تہذیب کے طور پر چین ایک اعلیٰ اور غالب طاقت کے طور پر امریکیوں کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ وقت ایک بار پھر حیرت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طریقے اور تفصیلات تبدیل ہوجائیں لیکن طاقت اور غلبہ کے بہاؤ کا صدیوں پرانا رائج چکر اس چکی میں بڑی بڑی طاقتوں کو پیس رہا ہے۔اصل خیالات، علت، منطق، جدت اور نظم و ضبط کے ذریعے، نئی طاقتیں پیدا ہوئیں۔ کوئی کسی کو روک نہیں پایا جو بہترسے بہترین اور اس سے بھی زیادہ جدید نظریات کے حامل تھے وہ کسی اور طاقت سے آگے نکلتے رہے۔ فطرتِ زندگی، سیارے، ایکو سسٹم اور کہکشاں کی طرح، انسانی دنیا میں اقوام کے مابین طاقت کا بہاؤ بھی فطرت ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہے صرف وقت کی بات ہے۔ وقت گزرتا رہے گا، بوڑھا مرجائے گا اور جوانوں کے لئے راہ ہموار کرے گا، خواہ ایک قوم ہو یا عوام۔ طاقت اور پیشرفت بدلتی رہے گی، شاید، یہ راز ہر عروج و زوال کی قبولیت کا ہے۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین